سٹی42: حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ آج ختم ہونے کا امکان ہے۔ فرانس، امریکہ اور دیگر بارہ ملکوں کی دو ماہ کی کوششوں کے نتیجے میں امریکہ کی تیار کردہ جنگ بندی تجاویز کو آج اسرائیل کی وار کیبنٹ سے منظوری ملنے کے بعد رسمی جنگ بندی کا اعلان ایک آدھ روز میں ممکن ہے۔
اسرائیل نے منگل کو لبنان میں 60 روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے، لیکن حزب اللہ کے خلاف جاری رکھنے کا بھی عزم ظاہر کیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اسرائیل، لبنانی حکومت اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے میں جنوبی لبنان کا وہ سرحدی علاقہ شامل نہیں ہو گا جس میں اس وقت اسرائیل کی فوج زمینی کارروائیاں کر رہی ہے۔ اس دوران لبنان کے اندر اسرائیل کے مزید حملوں میں بڑے پیمانہ پر جانی نقصان ہوا ہے۔
جنگ بندی کی تجویز امریکہ کی طرف سے آئی تھی اور اس پر پہلے حزب اللہ اور لبنان کی ھکومت کی جانب سے اتفاق کا اظہار کیا گیا، اس کے بعد اسرائیل کی اتحادی حکومت نے اسے جنگی کابینہ میں ڈسکس کیا اور کہا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ میں امریکی کارروائی کی دھمکی نے یروشلم کی فیصلہ سازی میں کردار ادا کیا،۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے پیر کے روز کہا ہےکہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی سے متعلق مذاکرات درست سمت میں جاری ہیں اور ہم معاہدے کے قریب ہیں۔
فرانسیسی صدر کے دفتر سے جاری بیان میں بھی کہا گیا ہےکہ لبنان میں جنگ بندی مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور امید ہے کہ یہ جلد نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔
ٹائمز آف اسرائیل نے ایک حکومتی اہلکار کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھی، حکومتی اتحاد کے وزراء دشمنی کے خاتمے کی طرف جائیں گے۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے پیر کے روز دی ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو منگل کی شام تل ابیب میں اعلیٰ سطحی سکیورٹی کابینہ کا اجلاس طلب کریں گے تاکہ لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ ایک سال سے زیادہ عرصہ سے جاری جنگ کے بعد 60 روزہ جنگ بندی کی منظوری دی جا سکے۔ ساتھ ہی، اہلکار نے زور دے کر کہا کہ اسرائیل حزب اللہ کے خلاف جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ دشمنی کے خاتمے کو قبول کر رہا ہے۔
"ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کب تک چلے گا،" اہلکار نے جنگ بندی کے بارے میں کہا۔ "یہ ایک مہینہ ہوسکتا ہے، یہ ایک سال ہوسکتا ہے۔"
8 اکتوبر 2023 سے، حزب اللہ کی زیرقیادت فورسز تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی کمیونٹیز اور سرحد کے ساتھ ملٹری پوسٹوں پر حملے کرتی رہی ہیں، اس گروپ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی جنگ کے دوران حماس کی حمایت کے لیے راکٹ اور میزائل کے ساتھ ڈرون حملے بھی کر رہے ہیں۔
7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے فوراً بعد اسرائیل کی اسرائیل کی 'جنگ کی کابینہ" نے لبنان کی سرحد پر واقع شمالی قصبوں سے تقریباً 60,000 رہائشیوں کو نکال کر اسرائیل کے نسبتاً محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیا تھا جہاں یا، اس خدشے کی روشنی میں کہ حزب اللہ بھی ایسا ہی کوئی حملہ کرے گا، اور اس کی طرف سے مسلسل راکٹ فائر کئے جائیں گے۔ حزب اللہ نے حماس جیسا کوئی حملہ تو نہین کیا تاہم روزانہ بنیاد پر درجنوں اور بعض اوقات سینکڑوں راکٹ ضرور فائر کئے جو اب تک جاری ہیں۔ کی وجہ سے۔ دو ماہ سے اسرائیل جنوبی لبنان کے راکٹ لانچ کئے جانے کے ممکنہ علاقہ میں جا کر زمینی کارروائی کے ذریعے حزب اللہ کی راکٹ باری روکنے اور اپنے شمالی باشندوں کی ان کے گھروں میں واپسی کو ممکن بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسرائیل کے سرکاری اہلکار نے کہا کہ جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی لبنان میں کارروائی کرنے کی آزادی کے ضمن میں اسرائیل کے اور امریکہ کے درمیان ایک خط کی ضمانت موجودہے۔ اسرائیل کی افواج نہ صرف اسرائیل پر حملہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف بلکہ حزب اللہ کی اپنی فوجی طاقت کو بڑھانے کی کوششوں کے خلاف بھی کام کر سکیں گی۔ "ہم کام کریں گے" ،اس اہلکار نے کہا۔
اسرائیل کے اس عہدیدار نے وضاحت کی کہ اسرائیل نے فیصلہ کیا کہ اس کے پاس جنگ بندی کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اس خوف سے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اپنے آخری ہفتوں میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے اسرائیل (کی نیتن یاہو حکومت) کو سزا دے سکتی ہے۔ جنگ بندی پر نیتن یاہو حکومت کی آمادگی کی مزید وجہ تلاش کرتے ہوئے اس اہلکار نے کہا کہ اسرائیل امریکہ سے درکار صلاحیتوں سے بھی محروم ہے، جن میں 134 D9 بلڈوزر شامل ہیں۔
اسرائیلی حکام نے پہلے کہا تھا کہ جنگ کے خاتمے کے لیے ایک معاہدہ قریب آ رہا ہے، اگرچہ کچھ مسائل باقی ہیں، جب کہ دو سینئر لبنانی عہدے داروں نے محتاط امید کا اظہار کیا تھا، یہاں تک کہ اسرائیلی حملوں نے لبنان کو نشانہ بنایا۔
چینل 12 نے جنگ بندی کو اب یقینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ منگل (آج) کی (کنگ کی کابینہ کی) میٹنگ سے پہلے جنگ بندی تبھی رکے گی جب "کچھ سخت" ہو جائے۔
نتن یاہو منگل کی صبح اپنے قریبی معاونین کی ایک چھوٹی میٹنگ کریں گے، جس میں اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر اور وزیر دفاع اسرائیل کاٹز شامل ہیں۔
بیروت کی جانب سے جنگ بندی معاہدہ کی تصدیق
دریں اثنا، ایک لبنانی اہلکار نے کہا کہ بیروت کو واشنگٹن کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ "گھنٹوں کے اندر" ایک معاہدے کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
لبنان کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر الیاس بو صاب نے پیر کے روز کہا کہ امریکہ کی تجویز کردہ جنگ بندی پر عمل درآمد شروع کرنے میں "کوئی سنگین رکاوٹیں" باقی نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کی نگرانی کون کرے گا اس پر ایک اہم نکتہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں فرانس سمیت پانچ ممالک پر مشتمل کمیٹی کے قیام پر رضامندی سے حل کیا گیا جس کی صدارت امریکہ کر رہا ہے۔
اسرائیل اس بات پر اصرار کرتا رہا ہے کہ فرانس اس معاہدے کا حصہ نہ بنے اور نہ ہی اس بین الاقوامی کمیٹی کا رکن بنے جو معاہدے کے نفاذ کی نگرانی کرے گی، حالیہ مہینوں میں صدر ایمانوئل میکرون کے دور میں اسرائیل کے خلاف اس کی سمجھی جانے والی دشمنی کی وجہ سے نیتن یاہو انہیں جنگ بندی کے معاہدہ میں کوئی کلیدی کردار دینے میں متامل تھے۔ میکرون نے حال ہی میں بارہا اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی کا مطالبہ کیا، اسے جنگ کے خاتمے کی جانب راستہ قرار دیتے ہوئے،اسرائیل کے لئے ایک سفارتی بحران کو جنم دیا۔
ایک بار جب فرانس نے جمعہ کو اشارہ کیا کہ وہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی گرفتاری کا پابند نہیں ہوگا، بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے تناظر میں - صرف یہ کہ وہ اس فیصلے کو "نوٹ لیتا ہے" -غالباً فرانس کی آئی سی سی کے ورڈکٹ کے متعلق لچک دار پوزیشن نے نیتن یاہو کو لبنان جنگ بندی معاہدہ میں فرانس کے نمایاں کردار کو قبول کرنے پر آمادہ کیا۔
جنگ بندی پر اتفاق کے باوجود جنگ میں تیزی؛ جنگ کے شعلے کی آخری بھڑک
لڑائی کو روکنے کی جانب پیش قدمی کے باوجود، اسرائیل اور حزب اللہ دونوں نے پیر کے روز بھی باہمی فائرنگ کا تبادلہ جاری رکھا۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ حزب اللہ جنگ بندی کے نفاذ سے پہلے راکٹ حملوں میں تیزی لائے گی، IDF ہوم فرنٹ کمانڈ نے پیر کی شام شمالی اسرائیل کے کئی علاقوں میں نئی پابندیاں جاری کیں
چینل 12 نے کہا کہ اگر جنگ بندی کے خاتمے کی کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں، تو IDF کا لبنان میں اپنے آپریشن میں توسیع کا منصوبہ ہ بھی موجود ہے۔
اس سے قبل پیر کے روز، قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر نے نیتن یاہو کو جنگ بندی کی تجویز کو مسترد کرنے کے لئے کہا، اور اسے "ایک سنگین غلطی" قرار دیا، البتہ، ماضی کے برعکس، اس مرتبہ بن گویر نے حکومت کو جنگ بندی منظور کرنے کی صورت میں حکومت گرانے کی دھمکی نہیں دی۔
بن گویر نے نیتن یاہو پر زور دیا کہ "میدان میں لڑنے والے کمانڈروں کی بات سنیں۔ بالکل ٹھیک اب، جب حزب اللہ کو مارا پیٹا جاتا ہے اور جنگ بندی کی خواہش ہوتی ہے، تو اسے رکنا منع ہے۔"
بین گویر کسی بھی معاہدے کی واضح طور پر مخالفت کرتے رہے ہیں۔ جس سے غزہ اور لبنان دونوں میں عارضی طور پر ہی سہی، دشمنی کا خاتمہ ہو، اور اسنہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ دھمکی دی ہے کہ اسرائیل کے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کرنے کی صورت میں اپنی پارٹی کو اتحاد سے نکال لیں گے۔
جنگ بندی کو بالآخر منظور کر لیا جائے گا، اسرائیلی اہلکار نے ٹائمز آف اسرائیل سے بات کرتے ہوئے کہا: "یہاں ایسے وزراء موجود ہیں جو اپنے حامیوں کے نکتہ نظر کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے ھامیوں کو مطمئین کرنے کے لئے بات کرتے ہیں، اور ہم اسے مدنظر رکھتے ہیں۔ لیکن بین گویر اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ یہ اسرائیل کے مفاد میں ہے۔"
غزہ ڈویژن کے دستے 25 نومبر 2024 کو جنوبی غزہ کے رفح میں کام کر رہے ہیں۔ (اسرائیل ڈیفنس فورسز)
حکومت سے وابستہ اس اہلکار نے یہ بھی دلیل دی کہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی سے حماس کے خلاف غزہ میں جنگ کے کامیاب خاتمے تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔ "حماس جو چاہتی تھی وہ حزب اللہ اور دیگر کی حمایت تھی۔ ایک بار جب آپ کنکشن کاٹ دیتے ہیں، تو آپ کے پاس ڈیل تک پہنچنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ ایک اسٹریٹجک کامیابی ہے،" اہلکار نے کہا۔ حماس تنہا ہے۔
اسرائیل کے اندر جنگ بندی کے حامی کیا چاہتے ہیں
حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل کی حالیہ جنگ حماس کے ساتھ ساڑھے تیرہ ماہ سے جاری جنگ کا ذیلی محاذ ہے۔ گزشتہ سال 7 اکتوبر کو تقریباً حماس نے سرائیل کے اندر گھس کر جنوبی اسرائیلی کمیونٹیز کے 1,200 افراد مارے تھے اور 251 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ تب سے حزب اللہ حماس کی مدد گار کی حیثیت سے شمال کی جانب سے حملے کر رہی تھی لیکن تیرہ ماہ میں جنوب میں حماس عملاً برباد ہو چکی ہے اور دو ماہ سے شمال میں حزب اللہ شدید نقصانات سے دوچار ہے، حزب اللہ ابتدا سے ہی جنگ بندی پر زور دیتی آئی ہے کیونکہ لبنان کے اندر اسرائیل کے حملوں کی زد میں رہنے سے اس کا رہا سہا انفراسٹرکچر بھی تباہ ہوتا رہے گا اور وہ بتدریج جنوبی لبنان سے راکٹ فائر کرنے کی صلاحیت سے بھی ہاتھ دھو دے گی۔
حزب اللہ کی خواہش کے عین برعکس اسرائیل میں نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی جنگ کو آخری ممکنہ انجام تک لے جانا چاہتے ہین لیکن اسرائیل کے اندر مسئلہ یہ ہے کہ ساٹھ ہزار بے گھر افراد اور ان کے ساتھ سو کے قریب یرغمالیوں کے اقارب اور ہمدرد حزب اللہ یا حماس کو آخری حد تک تباہ کرنے کی قیمت پر اپنے مصائب کو طول دیتے چلے جانے کے خلاف ہین اور ان کے ساتھ انٹرنیشنل کمیونٹی کا بڑھتا ہوا دباؤ آخر کار اسرائیل کو لبنان کی حد تک فوری جنگ بندی کی طرف لے جا رہا ہے۔
اسرائیل کی اس کے بعد جاری فوجی مہم کا باضابطہ مقصد غزہ میں حماس کی حکمرانی کے حصول کیلئے بحالی کے امکان اور باقی ماندہ فوجی صلاحیتوں کو تباہ کرنا، یرغمالیوں کی واپسی، اور ہزاروں بے گھر اسرائیلیوں کو شمال میں اور غزہ کی سرحد کے قریب ان کے گھروں کو بحفاظت واپس کرنا ہے۔
اسرائیل نے ستمبر کے اواخر میں لبنان میں حزب اللہ کے خلاف اپنی جارحیت تیز کر دی تھی، وسیع پیمانے پر فضائی حملے کئے جن میں گروپ کی زیادہ تر قیادت بشمول اس کے دیرینہ رہنما حسن نصر اللہ کو ختم کر دیا گیا۔
اس کے بعد اسرائیل نے جنوبی لبنان میں ایک زمینی کارروائی شروع کی جس کا مقصد علاقے میں حزب اللہ کے مضبوط گڑھوں کو صاف کرنا اور شمالی اسرائیل کے بے دخل ہونے والے باشندوں کے لیے اپنے گھروں کو واپس جانا محفوظ بنانا ہے۔
اس سارے عرصہ کے دوران حزب اللہ عملاً اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکی جو وہ اسرائیل کے براہ راست فضائی اور زمینی حملوں سے پہلے کر رہی تھی تاہم ایران نے حزب اللہ کو براہ راست حملوں سے بچانے کے لئے خود اسرائیل پر براہ راست سینکڑوں بیلسٹک راکٹوں کے ساتھ حملہ کیا لیکن اس حملے سے وہ کچھ زیادہ فوائد حاصل نہ کر سکا بلکہ التا خود ایسے ہی حملے کا نشانہ بن گیا اور اس کا جواب بھی نہ دے سکا۔