ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

حزب اللہ اور اسرائیل کی جنوبی لبنان سے واپسی؛ حزب اللہ امریکی تجویز سے متفق

Israel Hezbollah war, Truce proposal, City42
کیپشن: امریکی ایلچی آموس ہوچسٹین (بائیں) 21 اکتوبر 2024 کو بیروت میں لبنان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بیری سے ملاقات کر رہے ہیں۔ (اے ایف پی)
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

لبنان کی حکومت کے ایک عہدیدار  نے انکشاف کیاہے کہ حزب اللہ نے  جنگ بندی کی امریکی تجویز سے اتفاق کیا ہے۔
لبنان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے معاون، حزب اللہ کے اتحادی علی حسن خلیل  نے یہ اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ گیند اب اسرائیل کے کورٹ میں ہے۔ اس تازہ اطلاع سے  امریکی ایلچی کے بیروت جانے کی تصدیق ک ہو گئی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اشارہ دیا کہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد بھی اسرائیل حزب اللہ کے خلاف کارروائی کرے گا۔

Caption  لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے اس وقت کے نائب سربراہ نعیم قاسم (دائیں) 5 اپریل 2024  کو حزب اللہ کے مقتول کمانڈر عماد مغنیہ کی قبر  پر سابق وزیر خزانہ علی حسن خلیل (درمیان) اور لبنان میں ایران کے سفیر مجتبیٰ امانی کے ساتھ  موجود  ہیں۔   آج حسن خلیل نے امریکی جنگ بندی تجویز پر حزب اللہ کے مثبت جواب کی اطلاع دی ہے

بین الاقوامی خبر رساں ادارہ کی ایک رپورٹ کے مطابق لبنان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے پیر کے روز اس کے نمائندے کو بتایا کہ لبنان کی حکومت اور حزب اللہ  دونوں نے اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​بندی کے لیے امریکی تجویز پر اتفاق کیا ہے، لیکن اس مواد پر کچھ تبصرے بھی کیے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے چند روز پہلے شروع کی گئی اس کوشش کو لڑائی کے خاتمے کے لیے ابھی تک کی سب سے سنجیدہ کوشش قرار دیا گیا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

ایرانی حمایت یافتہ لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ  کے خلاف اسرائیل کی کارروائی میں تقریباً دو ماہ سے جاری ہے۔ حزب اللہ  گزشتہ  سال سات اکتوبر سے تقریباً  روزانہ اسرائیل پر حملے کرتی رہی ہے۔ اسرائیل نے دو ماہ پہلے حزب اللہ کے خلاف  پیجر حملوں  سے براہ راست کارروائی کا آغاز کیا تھا جس کے چند روز بعد ہوائی حملے شروع کئے گئے اور اس کے دو ہفتے بعد جنوبی لبنان مین زمینی کارروائی بھی شروع کر دی گئی۔ دو ماہ کے دوران ہزاروں ہوائی حملوں میں حزب اللہ کی قیادت کے ساتھ اس کے بیروت مین مرتکز انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا  جس مین اس کا مرکزی ہیڈکوارٹرا ور تمام اہم ونگز کے ہیڈکوارٹر، اسلحہ بنانے اور اسمبل کرنے کی چھوٹی فیکٹریاں اور اسلحہ کے کئی گودام شامل تھے۔اس کے ساتھ اسرائیل نے شام سے حزب اللہ کو ہتھیاروں کی فراہمی کے چینل پر بھی حملے کئے۔  گزشتہ تین ہفتوں سے اسرائیل کی جانب سے کئی سطحوں پر یہ قیاس ظاہر کیا گیا کہ حزب اللہ کے ہتھیاروں کی سپلائی بہت کم ہو گئی ہے۔ دوسری طرف روزانہ اسرائیل پر حزب الہہ کے سینکڑوں راکٹوں کے حملےاور اس کے ساتھ ڈرون کے حملے اب بھی تواتر کے ساتھ جاری ہیں، ایسے ہی ایک حملے میں کل پیر کے روز شمالی اسرائیل مین ایک خاتون ہلاک ہوئی اور آج منگل کے روز ایک حملے میں پانچ افراد زخمی ہوئے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارہ کی رپورٹ کے مطابق لبنان کی پارلیمنٹ کے سپیکر نبیہ بری کے ایک معاون علی حسن خلیل نے نیوز ایجنسی کے نمائندہ  کو بتایا کہ لبنان نے پیر کے روز  لبنان میں متعین امریکی سفیر کو اپنا تحریری جواب بھیجا ہے اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وائٹ ہاؤس کے ایلچی آموس ہوچسٹین بات چیت جاری رکھنے کے لیے بیروت کا سفر کر رہے ہیں۔

حزب اللہ نے  جنگ بندی پر بات چیت کی توثیق کی۔

خلیل نے مزید تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا، "لبنان نے کاغذ پر اپنے تبصرے ایک مثبت ماحول میں پیش کیے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ "ہم نے جو بھی تبصرے پیش کیے ہیں وہ (اقوام متحدہ) کی قرارداد 1701 کی تمام دفعات کے ساتھ عین مطابق عمل کی تصدیق کرتے ہیں۔"

خلیل نے کہا کہ اس اقدام کی کامیابی کا انحصار اب اسرائیل پر ہے، انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل کوئی حل نہیں چاہتا تو یہ سو  مسائل پیدا کر سکتا ہے۔


ہوچسٹین نے پیر کے اوائل میں، حالیہ تجویز پر لبنانی ردعمل پر بیروت کی جانب سے وضاحت کے انتظار میں، لبنان روانگی میں تاخیر کی تھی۔ انہیں دو گھنٹے بعد  بیروت سے لبنانی حکومت کی جانب سے مثبت جواب ملا تھا جس نے انہیں بیروت کا سفر کرنے پر آمادہ کیا۔

کہا جا رہا ہے کہ  اگر بیروت میں مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو ہوچسٹین بدھ کو اسرائیل کا سفر کریں گے۔

ٹائمز آف اسرائیل نے Ynet نیوز سائٹ کے حوالے سے لکھا ہے ، امریکہ کا خیال ہے کہ معاہدے تک پہنچنے کے 50 فیصد سے زیادہ امکانات ہیں، حالانکہ متعدد آؤٹ لیٹس نے امریکہ، لبنان اور اسرائیل کے حکام کے حوالے سے خبردار کیا ہے کہ یہ (جنگ بندی معاہدہ) یقینی نہیں ہے۔

امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کے لئے فلوٹ کی گئی تجاویز  پر قیاس آرائیاں کم و بیش تین ہفتوں سے جاری ہیں۔ نومبر کے شروع میں کان پبلک براڈکاسٹر کی طرف سے شائع کئے گئے امریکی تجویز کے ایک لیکڈ  مسودے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کیا گیا ہے، جو 2006 میں دوسری لبنان جنگ کے خاتمے کے لیے منظور کی گئی تھی۔ یہ قرارداد بنیادی طور پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے اور حزب اللہ کی افواج کو دریائے لیتانی کے شمال کی طرف منتقل ہو جانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ 2006 کی جنگ بندی کے بعد اسرائیل تو لبنان سے نکل گیا تھا لیکن لبنان کی حکومت حزب اللہ کی بہت بڑی ملیشیا سے جنوبی لبنان کو خالی کر دینے اور غیر مسلح ہو جانے پر آمادہ کرنے مین مکمل ناکام رہی۔ اس دوران حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں عملاً اپنی عملداری قائم کی اور سارے علاقہ مین اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنے کی تیاریوں کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جن میں سرنگوں اور زیر زمین بڑے بنکروں پر مشتمل کمپلیکس تعمیر کرنا شامل تھا۔ ان تیاریوں کی بدولت حزب اللہ گزشتہ ایک سال سے جنوبی لبنان کے علاقوں سے شمالی اسرائیل پر راکٹوں کے اور ڈرون کے حملے کرتی رہی ہے۔ 

ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے پیش کردہ جنگ بندی کی تجویز کے سب سے حالیہ مسودے میں 60 دن کی ٹرانزیشن کی مدت کا ذکر ہے جس کے دوران اسرائیل کی افواج جنوبی لبنان سے نکل جائیں گی، لبنانی فوج  لبنان اسرائیل سرحد کے قریب تعینات ہو جائے  گی، اور حزب اللہ اپنے بھاری ہتھیاروں کو دریائے  لیتانی کے شمال میں منتقل کرے گی۔

انٹرنیشنل نیوز ایجنسی اے ایف پی نے پیر کے روز رپورٹ کیا تھا کہ بیروت نے بڑے پیمانے پر اس مسودے کی توثیق کر دی ہے، اور واشنگٹن کو جواب بھیجنے سے پہل اس تجویز پر اپنے  حتمی تبصرے (کومنٹس) تیار کر رہا ہے۔ خبر رساں ایجنسی نے ایک حکومتی اہلکار کے حوالے سے جو  اس بات چیت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، کہا: "ہم نے بہت پیش رفت کی ہے۔ لبنان اس تجویز پر بہت مثبت نظریہ رکھتا ہے۔

Caption   اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری جنگ کے درمیان 18 نومبر 2024 کو جنوبی لبنان کے گاؤں پر  اسرائیلی فضائی حملے کے بعد  دھواں اٹھ رہا ہے۔ (اے ایف پی)

اے ایف پی کے مطابق، اہلکار نے مزید کہا، "ہم مسودے کے امریکی الفاظ کے بارے میں اپنے آخری ریمارکس کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔" ایک اور سرکاری اہلکار نے مبینہ طور پر کہا کہ بیروت "امریکہ کے خصوصی ایلچی آموس ہوچسٹین کے آنے کا انتظار کر رہا ہے تاکہ ہم ان کے ساتھ کچھ بقایا نکات کا جائزہ لے سکیں۔" دونوں ذرائع نے بتایا کہ اسرائیل نے ابھی تک جنگ بندی کے منصوبے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔


خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا کہ بیروت نے پہلے ہی اس مسودے کا تحریری جواب جمع کرایا ہے۔

یہ اطلاعات امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے پیر کے روز  اس بیان کے بعد سامنے آئیں کہ بائیڈن انتظامیہ ایک معاہدے کی طرف "پیش رفت کر رہی ہے"، لیکن انہوں نے مزید تفصیلات بتانے سے انکار کردیا تھا۔

Axios کے مطابق، امریکہ کے مجوزہ معاہدہ کے جن نکات پر اختاف سامنے آیا ہے ان میں یہ بھی ہے کہ "معاہدے کے نفاذ کی نگرانی کے لیے کون سے ممالک ایک بین الاقوامی کمیٹی بنائیں گے"، اور اسرائیل کے باضابطہ طور پر جنوبی لبنان میں موجودگی سے دستبردار ہونے کے بعد بھی جنوبی لبنان میں جا کر کام کرنے کی آزادی ہو گی یا نہیں۔