سٹی42: چہار اطراف سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کے عوام پندرہ ماہ سے جاری غزہ جنگ سے نجات ملنے کے قریب ہیں۔ حماس نے امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی تجاویز پر مشتمل جنگ بندی معاہدہ کو تسلیم کر لیا ہے۔ توقع ہے کہ اب اس معاہدہ کا اعلان ہونے میں محض دن لگیں گے۔
ٹائمز آف اسرائیل نے آج منگل کو علی الصبح یہ سٹوری پبلِش کی کہ اسرائیلی حکام نے اے پی کو بتایا کہ حماس نے غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے مسودے کو قبول کر لیا ہے۔
اسرائیل اپنی پانچ خاتون فوجیوں کی واپسی کے لئے ہر ایک کے عوض 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا جن میں سے 30 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں ایک ہزار فلسطینیوں کی اسرائیلی جیلوں سے رہائی ہوگی۔ حماس نے سات اکتوبر حملوں کے منصوبہ ساز اور غزہ میں دس سال تک عملاً مطلق حاکم رہنے والے اپنے لیدر یحیٰ سنوار کی لاش بھی واپس مانگی ہے۔
تین مرحلے
معاہدہ کے مطابق پہلے مرحملہ میں اسرائیل کے یرغمالیوں کی رہائی کے عوض اسرائیل کی جیلوں میں قید وہ افراد رہا کئے جائیں گے جن کے ناموں پر حماس کے ساتھ مذاکرات میں اتفاق ہو چکا ہے۔
اس مرحلہ کے سولہ دن بعد معاہدہ کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گا۔ اس مرحلہ میں مذاکرات کار اسرائیل کے باقی ماندہ یرغمالیوں اور یرغمالیوں کی لاشوں کی واپسی کے معاملات کو حتمی شکل دیں گے۔
معاہدہ بنیادی طور پر تین مرحلوں پر مشتمل ہو گا، آخری مرحلہ میں غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا اور غزہ کے مستقبل کے انصرام کے معاملات طے ہوں گے۔ دراصل یہ معاملات اور بہت سے دوسرے ضمنی معاملات ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ اس وقت جس معاہدہ کے ہونے کا یقین ظاہر کیا جا رہا ہے وہ بنیادہ طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کئے جا سکنے والے یرغمالیوں اور ان کے عوض فلسطینی قیدیوں کی رہائی سے متعلق ہے۔ سٹی 42 نے 13 جنوری کو اس تین مرحلوں کے معاہدہ کی خبر پبلش کی تھی۔
غزہ اور اسرائیل کے درمیان نیا بفر زون
ایک اسرائیلی حکومتی عہدیدار کے مطابق اسرائیل متوقع جنگ بندی کے پیشِ نظر سکیورٹی انتظامات پر بھی غور کر رہا ہے جس میں غزہ اور اسرائیل کی سرحد پر ایک بفر زون برقرار رکھنا شامل ہے تاکہ ملک کے شمالی علاقوں میں واپس آنے والے افراد کی نگرانی کی جا سکے اور حماس کی جانب سے اسلحہ سمگل کرنے کی کوشش کو روکا جا سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں حماس کے اتحادیوں کا کمزور ہونا، مسلح گروہ پر اندرونی دباؤ اور مذاکراتی عمل میں امریکی انتظامیہ کی دلچسپی کے سبب معاہدے کے ’نئے امکانات‘ پیدا ہوئے ہیں تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ’جب تک ہمارے تمام یرغمالی گھر واپس نہیں لوٹ جاتے ہیں ہم غزہ کی پٹّی کو نہیں چھوڑیں گے۔‘
اسرائیل جیسا بفر زون اب غزہ اور اسرائیل کے درمیان چاہ رہا ہے ویسا پہلے شام اور اسرائیل کے درمیان موجود ہے۔ لبنان میں جنوبی لبنان کی سرحدہ پٹی کا پانچ کلومیٹر کے لگ بھگ علاقہ بھی جنگ بندی معاہدہ کے تحت عملاً اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بفر زون بن رہا ہے جس کی سکیورٹی لبنان کی نیشنل آرمی کے ذمہ ہے اور اس علاقہ سے اسرائیل کی فوج اور حزب اللہ کے جنگ جوؤں دونوں کو جنگ بندی کے آغاز کے 6- روز کے اندر مکمل طور پر نکلنا ہے۔
انخلا پر مجبور کئے گئے غزن غزہ میں واپس جا سکیں گے
غزہ پندرہ ماہ کی جنگ کے دوران بیشتر علاقہ ملبہ کا ڈھیر بن چکا ہے جہاں فوری طور پر کسی انسانی کمیونٹی کا رہائش اختیار کرنا ممکن نہیں۔ ان علاقوں میں کھانے پینے اور حفظان صحت کا کوئی انتظام راتوں رات ہونا ممکن نہیں۔ اس کے باوجود کہا جا رہا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ مین فلسطینیوں کی غزہ مین واپسی کی شقیں شامل ہیں۔ یہ واپسی کب کیسے ہو گی، علاقہ میں انصرام کون لوگ سنبھالیں گے، ان سوالات پر مسکن جوابات سامنے آنا باقی ہے۔
حماس کی ہاں
اسرائیل کا میڈیا بتا رہا ہے کہ حماس نے کئی ماہ میں پہلی مرتبہ آخر کاری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کی ڈیل پر ہاں کہہ دی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی یہی بتایا ہے کہ حماس نے ڈیل کرنے سے اتفاق کر لیا ہے۔ الجزیرہ نیوز نے بتایا کہ قطر کے ثالث نے بھی غزہ جنگ بندی معاہدہ کے از حد قریب پہنچنے کی تصدیق کی ہے، سی این این نے امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو یہ کہتے بتایا ہے کہ ہم غزہ معاہدہ کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل نے بتایا کہ معاہدہ کے تحت 33 زندہ یرغمالیوں کی رہائی متوقع ہے، یہ غالباً زندہ یرغمالیوں کی بڑی تعداد ہے۔
کسی بھی معاہدے سے لڑائی کو روکنے اور اسرائیل اور حماس کی اب تک کی سب سے مہلک اور تباہ کن جنگ کو ختم کرنے کی امیدیں وابستہ ہیں، یہ ایک ایسا تنازع ہے جس نے مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کیا اور دنیا بھر میں احتجاج کو جنم دیا۔
اس سے سخت متاثرہ غزہ کی پٹی کو راحت ملے گی، جہاں اسرائیل کی جارحیت نے بڑے علاقے کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے اور 2.3 ملین کی آبادی کا تقریباً 90 فیصد ب کو ے گھر کر دیا ہے، بہت سے لوگوں کو قحط کا خطرہ ہے۔
مذاکرات میں کون کون شامل ہے
کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات کے حتمی مرحلہ میں پہلی مرتبہ حماس اور اسرائیل کے مذاکراتی وفود ایک ہی عمارت میں موجود ہیں۔ اسلامک جہاد کے لوگ بھی دوحہ پہنچے ہوئے ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ مذاکرات ’حتمی مرحلے‘ میں داخل ہو چکے ہیں اور انھیں امید ہے کہ اس کا اختتام کسی ’واضح اور جامع‘ معاہدے پر ہوگا۔
فریقین کے درمیان مذاکرات میں قطری، مصری اور امریکی نمائندے ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ان مذاکرات کے میزبان قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی ہیں۔ اسرائیلی کی نمائندگی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا اور داخلی سکیورٹی کے ذمہ دارے ادارے شاباک کے سربراہ رونن بار کر رہے ہیں۔
ان مذاکرات میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے نمائندے بریٹ مکگرک بھی موجود ہیں۔ بنیادی تجویز جس نے مذاکرات کے نئے سلسلہ کا آغاز کروایا وہ صدر جو بائیڈن کی چرف سے مئی 2024 میں آئی تھی۔
آخری وقت پر ان مذاکرات میں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف بھی موجود ہیں۔
اسرائیل میں فیصلہ نیتن یاہو کے اتحادیوں کے ہاتھ
اگر کوئی ڈیل ہو جاتی ہے تو یہ فوری طور پر نافذ نہیں ہو گی۔ اس منصوبے کو وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی سکیورٹی کابینہ اور پھر ان کی مکمل کابینہ سے منظوری درکار ہوگی۔ دونوں پر نیتن یاہو کے اتحادیوں کا غلبہ ہے اور بظاہر امکان ہے کہ وہ کسی بھی تجویز کو منظور کر لیں گے۔
حکام نے اس سے قبل امید کا اظہار کیا ہے، صرف مذاکرات کے تعطل کے لیے جبکہ متحارب فریق ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ لیکن اب وہ تجویز کرتے ہیں کہ وہ بیس جنوری سے پہلے ایک معاہدہ کر سکتے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسرائیل کی حکومت میں نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کے اتحادی، نیشنل سکیورٹی کے وزیر بین گویر کا کہنا ہے کہ انہوں نے بار بار یرغمالیوں کی ڈِیل کو ناکام بنایا، آج منگل کے روز انہوں نے پبلکلی یہ کہا کہ دوسری انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے وزیر سموٹریچ کو اس جنگ بندی معاہدہ کو روکنے میں ان کی مدد کرنا چاہئے۔
انتہائی دائیں بازو کے اوٹزما یہود کے رہنما بین گویر نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران 'ہم اس معاہدے کو وقتاً فوقتاً آگے بڑھنے سے روکنے میں کامیاب رہے'۔ مذہبی صہیونیت پارٹی نے کہا کہ نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے تیار ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ جنگ بندی کا کڑوا نوالہ نگلنا نیتن یاہو کی حکومت کے لئے آسان بہرحال نہیں کیونکہ ایک طرف بین الاقوامی دباؤ، دوسری طرف یرغمالیوں کی فوری واپسی کے لئے آخری حد تک بڑھ چکا عوامی دباؤ اور تیسری طرف نیتن یاہو کے انتہائی دائین بازو کے اتحادی؛ یہ معاہدہ آنے والے دنوں میں اتحادی حکومت کا شیرازہ بکھرنے تک لے جا سکتا ہے۔
غزہ میں صورتحال جوں کی توں
دوحہ میں معاہدہ کے قریب پہنچنے کی اطلاعات کے ہنگام میں غزہ میں جنگ بدستور جاری رہیْ غزہ میں رات بھر اور منگل تک اسرائیلی حملوں میں دو خواتین اور چار بچوں سمیت کم از کم 18 فلسطینی ہلاک ہو گئے، مقامی صحت کے حکام کے مطابق، جنہوں نے کہا کہ ایک خاتون حاملہ تھی اور بچہ بھی مر گیا۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے نئے حملوں پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ صرف عسکریت پسندوں کو نشانہ بناتا ہے اور ان پر شہریوں کے درمیان چھپنے کا الزام لگاتا ہے۔
اسلامک جہاد کے وفد کی دوحہ آمد
منگل کی شام معاہدہ کے حوالے سے تازہ ترین خبر یہ آ رہی ہے کہ اسلامک جہاد کا وفد بھی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں یرغمالیوں کے معاہدے کی حتمی تفصیلات پر بات چیت کے لیے دوحہ پہنچ گیا ہے۔ اسرائیل سے اغوا کر کے غزہ میں یرغمال رکھے گئے باقی ماندہ 99 قیدیوں میں سے کچھ اسلامک جہاد کے کارکنوں کی قید مین بھی ہیں۔ اسلامک جہاد کے کارکن بھی 7 اکتوبر 20233 کے حملوں مین حماس کے کارکنوں کے ساتھ تھے۔
فلسطینی اسلامی جہاد دہشت گرد گروپ نے کچھ دیر پہلے اعلان کیا تھا کہ ان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد آج شام دوحہ پہنچے گا تاکہ یرغمالیوں کے معاہدے کی حتمی تفصیلات کے بارے میں بات چیت میں شرکت کرے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تکمیل کے دہانے پر ہے۔
اے پی کی رپورٹ
ایسوسی ایٹڈ پریس کے قاہرہ سے ایک سٹوری فائل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکام کا کہنا ہے کہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے مسودے کو قبول کر لیا ہے۔
حماس نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی اور درجنوں مغویوں کی رہائی کے معاہدے کے مسودے کو قبول کر لیا ہے، یہ بات مذاکرات میں شامل دو عہدیداروں نے منگل کو کہی۔ ثالثی کرنے والے امریکہ اور قطر نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ 15 ماہ سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے ایک قدم کے قریب لانے کے لیے معاہدے پر دستخط کرنے کے ابھی قریب ترین مقام پر ہیں۔
ڈیل ایگریمنٹ کی کاپی
ایسوسی ایٹڈ پریس نے مجوزہ معاہدے کی ایک کاپی حاصل کی، اور ایک مصری اہلکار اور حماس کے ایک اہلکار نے اس کی صداقت کی تصدیق کی۔ ایک اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ پیش رفت ہوئی ہے تاہم تفصیلات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ تینوں عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات چیت پر بات کی۔
"مجھے یقین ہے کہ ہم جنگ بندی کر لیں گے،"امریکہ کے سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے منگل کو ایک تقریر کے دوران کہا کہ یہ حماس پر منحصر ہے۔ "یہ بالکل دہانے پر ہے۔ یہ پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہے،" اور لفظ گھنٹوں، یا دنوں میں آ سکتا ہے۔
امریکہ، مصر اور قطر نے گزشتہ سارا سال غزہ میں جنگ کے خاتمے اور حماس کے زیر قبضہ درجنوں یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کی کوششوں میں گزارا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے حملہ سے اس جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ اس روز حماس اور اسلامک جہاد کے کارکنوں نے اسرائیل کے اندر گھس کر سینکڑوں کو قتل کرنے کے ساتھ دو سو پچاس سے زیادہ مردوں، خواتین اور بچوں کو اغوا کر لیا تھا۔ غزہ کے اندر اب بھی تقریباً 99 افراد قید ہیں، اور اسرائیلی فوج کا خیال ہے کہان مین سے کم از کم ایک تہائی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ 'قریب ترین مقام' پر - قطر
اپنی سرزمین اور بہت سی سہولیات حماس کو مذاکرات میں شریک ہونے کے لئے فراہم کرنے والے ملک قطر کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ گزشتہ چند مہینوں میں قریب ترین مقام پر ہے، اس نے مزید کہا کہ مذاکرات میں بہت سی رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔
قطر نے غزہ جنگ بندی کا حتمی مسودہ اسرائیل اور حماس کو بھجوادیا تھا۔ اس ضمن میں تازہ ترین اطلاع حماس کی جانب سے معاہدہ کو قبول کرنے اور اسلامک جہاد کے اپنے نمائندے دوحہ بھیجنے کی آئی ہیں۔
غزہ میں 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 46,645 فلسطینی ہلاک اور 110,012 زخمی ہو چکے ہیں، ان میں حماس اور اسلامک جہاد کے ہزاروں کارکن بھی شامل ہیں جن کی تعداد اسرائیل کی فوج مرنے والوں کی تعداد کا تقریباً نصف بتاتی ہے۔
معاہدہ اب ہو یا ٹرمپی حکومت میں، اس کی شرائط صدر بائیڈن نے متعین کی ہیں
امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ اگر حماس راضی ہوتی ہے تو یرغمالی اور جنگ بندی کا معاہدہ 'نتیجے اور عمل درآمد کے لیے تیار ہے' سی این این نے آج رپورٹ کیا کہ سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے کہا کہ اگر حماس اس معاہدے کو قبول کرتی ہے تو یرغمالی اور جنگ بندی کا معاہدہ "تخمینے اور عمل درآمد کے لیے تیار ہے"۔
"مجھے یقین ہے کہ ہم جنگ بندی حاصل کر لیں گے،" بلنکن نے منگل کو کہا۔
بلنکن نے تسلیم کیا کہ (گزشتہ دنوں)"مختلف لمحات میں، مختلف جماعتوں نے کسی معاہدے کو حتمی شکل دینا مشکل بنا دیا ہے یا واقعات نے اس کی تکمیل میں تاخیر یا پٹری سے اتار دیا ہے۔" اعلیٰ امریکی سفارت کار نے خاص طور پر نیتن یاہو حکومت کا نام نہیں لیا تاہم حماس کے رویہ کو منفی قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "گزشتہ کئی مہینوں سے حماس نے بگاڑنے کا کردار ادا کیا ہے، لیکن گزشتہ کئی ہفتوں سے ہماری بھرپور کوششوں نے ہمیں مکمل اور حتمی معاہدے کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔"
اتوار کو امریکہ، قطر اور مصر نے ایک حتمی تجویز پیش کی۔ گیند اب حماس کی کورٹ میں ہے،" بلنکن نے اٹلانٹک کونسل میں ریمارکس میں کہا تھا۔
وزیر خارجہ بلنکن نے ایمانداری کے ساتھ تجزیہ کرتے ہوئے کہا، چاہے بائیڈن انتظامیہ کی مدت کے آئندہ چھ دنوں میں کوئی معاہدہ تحریر ہو جائے یا ٹرمپ انتظامیہ کے وائٹ ہاؤس سنبھالنے کے بعد، ان کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ "معاہدے کی ان شرائط پر قریب سے عمل کرے گا جو صدر بائیڈن نے گزشتہ مئی میں پیش کی تھیں۔"
علاوہ ازیں رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حماس نے شہید رہنما یحییٰ سنوار کی لاش کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم اس پر سینئر اسرائیلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ اسرائیل یحییٰ سنوار کی لاش حماس کو نہیں دے گا۔