سٹی42: پنجاب کے دارالحکومت لاہور اور کچھ دیگر شہروں میں ماحول کی آلودگی نے پاکستان کو دنیا کے لئے تماشا بنا دیا۔ مقامی کنٹری بیوٹرز کی مدد سے امریکہ کے دو بڑے صحافتی اداروں واشنگٹن پوسٹ اور سی این این نے سنی سنائی باتوں سے خوفناک کہانیاں بنا کر شائع کی ہیں جن سے تاثر ملتا ہے کہ پنجاب میں سموگ سے بیس لاکھ کے لگ بھگ افراد بیمار ہیں اور خدا نہ خواستہ لاکھوں بچے بس مرنے ہی والے ہیں۔
امریکہ کے مؤقر ترین اخبار واشنگٹن پوسٹ نے آج منگل کی شام خبر شائع کی ہے کہ پاکستان کے مشرقی پنجاب صوبے میں گزشتہ ایک ماہ میں فضائی آلودگی میں بگڑتے ہوئے اندازے کے مطابق اٹھارہ لاکھ افراد بیمار ہوئے۔ سی این این نے کسی دوسرے ادارہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ 11 ملین (ایک کروڑ دس لاکھ)بچے سموگ سے متاثر ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ
واشنگٹن پوسٹ نے لاہور کے "صحت کے حکام " نے منگل کی شام کو بتایا کہ بچوں کی صحت کے تحفظ کے لیے صوبے بھر کے اسکولوں کو پانچ دن کے لیے بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ مین بتایا کہ 127 ملین کی آبادی والا پنجاب" گزشتہ ماہ سے "سموگ" سے نمٹنے" کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نےلکھا کہ پنجاب کے سموگ سے متاثرہ اضلاع میں گزشتہ 30 دنوں میں 1.8 ملین یعنی اٹھارہ لاکھ سے زائد افراد ہسپتالوں اور پرائیویٹ کلینکس گئے اور ان میں سے زیادہ تر سانس کی بیماریوں اور آنکھوں کی جلن میں مبتلا تھے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس خوفزدہ کر دینے والی رپورٹ میں بیمار افراد کی تعداد "محکمہ صحت کے ملازم احسن ریاض " کے حوالے سے شامل کی ہے
واشنگٹن پوسٹ نے مزید دعویٰ کیا کہ اس سے پہلے حکام کا کہنا تھا کہ حالیہ ہفتوں میں دسیوں ہزار افراد کا ہسپتالوں میں علاج کیا گیا، لیکن ریاض ن (احسن ریاض) نے منگل کو کہا کہ سموگ سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اور ہسپتال ایسے مریضوں سے بھر گئے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا، " زہریلے سموگ نے اکتوبر سے پاکستان کے ثقافتی دارالحکومت لاہور اور پنجاب کے 17 دیگر اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔" اس دعوے کو سپورٹ کرنے کے لئے کہ واقعہ 218 ضلعے "سموگ" کی لپیٹ میں ہیں، واشنگٹن پوسٹ نے اس اطلاع کو اپنی رپورٹ میں شامل کیا کہ پورے صوبے میں حکام کی جانب سے "سموگ سے متاثرہ 18 اضلاع" میں اسکول بند کیے گئے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اس (سموگ) نے گزشتہ ہفتے حکومت کو تمام پارکوں اور عجائب گھروں کو 10 دن کے لیے بند کرنے پر مجبور کیا۔
حکام نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ غیر ضروری سفر سے گریز کریں کیونکہ سموگ کی ریکارڈ لہر سانس کی بیماریوں اور آنکھوں میں انفیکشن کا باعث بن رہی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی "خبر" میں مزید سنسنی بھرنے کے لئے یہ بھی شامل کیا گیا کہ اقوام متحدہ کی بچوں کی ایجنسی نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں 11 ملین بچوں کی صحت فضائی آلودگی کی وجہ سے خطرے میں ہے، جو ""ماہرین"" کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں پانچواں موسم بن گیا ہے۔
پنجاب میں تحفظ ماحولیات کے محکمے کے مطابق، ملتان - صوبے کا ایک شہر - منگل کو سب سے زیادہ آلودہ شہر رہا، جہاں ہوا کے معیار کے انڈیکس کی ریڈنگ تقریباً 700 تھی۔ 300 سے زیادہ کی کوئی بھی چیز صحت کے لیے خطرناک سمجھی جاتی ہے۔
حکام نے چہرے ڈھانپنے کے لئے ماسک لازمی پہننے کا حکم دیا ہے، لیکن اس کو بڑے پیمانے پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ آلودگی سے نمٹنے کے لیے مصنوعی بارش کے طریقوں پر غور کر رہی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی اس سموگ کو پنجاب کا سب سے عظیم بحران قرار دینے والی رپورٹ میں مذکورہ بالا اطاعات کے سوا کوئی مواد شامل نہیں کیا گیا۔
سی این این کی رپورٹ
واشنگٹن پوسٹ کی منگل کی شام شائع ہونے والی رپورٹ سے 20 گھنٹے پہلے امریکہ کے سب سے بڑے نیوز چینل سی این این نے پاکستان کے صوبہ پنجاب میں "سموگ" کے متعلق رپورٹ شائع کی جس کا بیان واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ سے بھی کچھ زیادہ خوفزدہ کرنے والا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق:
موٹی، زہریلی اسموگ کی ریکارڈ توڑنے والی سطح جس نے گزشتہ ماہ سے مشرقی پاکستان اور شمالی ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اسے حیران کن سیٹلائٹ تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ناسا ورلڈ ویو شوز کی سیٹلائٹ تصویروں سے پتہ چلتا ہے کہ سرمئی سموگ کا ایک بہت بڑا بادل پاکستان کے صوبہ پنجاب پر چھا گیا ہے اور دارالحکومت نئی دہلی اور اس سے آگے مشرق میں ہندوستان تک پھیلا ہوا ہے،
سی این این کی رپورٹ میں بھی آلودگی کے بے تحاشا بڑا مسئلہ ہونے کے حق میں متاثرہ افراد کے اعداد و شمار یا آلودگی نکے متعلق کسی سائنٹفک ریسرچ کی بجائے یہ شواہد پیش کئے گئے کہ پاکستان میں حکام نے اسکولوں اور عوامی مقامات کو بند کر دیا ہے، اور آلودگی نے انہیں سکولوں اور عوامی مقامات کی بندش پر مجبور کردیا ہے, " کیونکہ تیز دھند سے لاکھوں لوگوں کی صحت کو خطرہ ہے۔"
اس ہفتے کے آخر میں پاکستان کے شہروں لاہور اور ملتان سے لی گئی تصاویر میں گلیوں میں گہرا کہرا اور عمارتیں نظر آنے سے روکتا دکھائی دیتا ہے۔
سی این این کی اس حقائق اور شواہد سے محروم رپورٹ کو مؤثق رپورٹ کا رنگ دینے کے لئے عمومی دعویٰ کیا گیا ہے کی "اس خطے میں آلودگی ہر موسم سرما میں بڑھ جاتی ہے، جب زرعی فضلہ جلانے والے کسانوں، کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس، ٹریفک اور بغیر ہوا کے دنوں کی وجہ سے زرد کہرا آسمان پر چھا جاتا ہے۔ سردیوں میں ہوا کا معیار خراب ہو جاتا ہے کیونکہ ٹھنڈی اور خشک ہوا آلودگی کو دور کرنے کے بجائے اسے پھنسا دیتی ہے۔",
سی این این کی رپورٹ میں لاہور کے کسی "حکام" کا واضح حوالہ دیئے بغیر کہا گیا ہے کہ "اگرچہ جنوبی ایشیا کے بڑے شہر ہر سال زہریلی سموگ کا شکار ہوتے ہیں، لیکن پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے حکام نے اس موسم کو بے مثال قرار دیا ہے۔"
سی این این کی اس رپورٹ میں پیر کے روز، شہر کا ہوا کے معیار کا اشاریہ 1,200 سے اوپر تھا، جو عالمی ہوا کے معیار کو ٹریک کرنے والے IQAir کے مطابق "خطرناک" سمجھا جاتا ہے۔ 300 سے اوپر پڑھنا کسی شخص کی صحت کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
IQAir کے مطابق، پاکستان کے 127 ملین آبادی والے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کے کچھ حصوں میں ہوا کے معیار کا انڈیکس گزشتہ ہفتے میں 1,000 سے زیادہ مرتبہ سے تجاوز کر گیا ہے۔
پیر کو سٹی42 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق شہر میں آلودگی کی مجموعی شرح565ریکارڈ کی گئی۔
لیکن امریکہ کے مؤقر نیوز چینل کی ویب سائٹ پر موجود رپرورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پیر کے روز، شہر کا ہوا کے معیار کا اشاریہ 1,200 سے اوپر تھا، جو عالمی ہوا کے معیار کو ٹریک کرنے والے IQAir کے مطابق "خطرناک" سمجھا جاتا ہے۔
سی این این نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ مزید بتایا کہ" پیر کو پنجاب کے شہر ملتان میں، سب سے باریک اور خطرناک ترین پولیوٹنٹ PM2.5 کی ریڈنگ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقرر کردہ محفوظ لیول سے 110 گنا زیادہ تھی۔"
اپنی رپورٹ کو سائنٹفک رنگ دینے کے لئے سی این این کی مقامی کنٹریبیوٹر اور اس کی ساتھی رپورٹر نے یہ عمومی معلومات کا حوالہ شامل کیا, " سانس لینے پر، PM2.5 پھیپھڑوں کے بافتوں میں گہرا سفر کرتا ہے جہاں یہ خون میں داخل ہو سکتا ہے۔ یہ فوسل ایندھن کے دہن، دھول کے طوفان اور جنگل کی آگ جیسے ذرائع سے آتا ہے، اور اس کا تعلق دمہ، دل اور پھیپھڑوں کی بیماری، کینسر، اور سانس کی دیگر بیماریوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں علمی خرابی سے ہے۔
سی این این نے ا]پنی رپورٹ میں پنجاب کے "بے مثال خوفناک سموگ اور ماحول کی آلودگی" کے متاثرین کا حوالہ انٹرنیشنل نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس ک سے لے کر شامل کیا اور لکھا کہ اے سوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، پاکستان میں ہسپتال اور کلینک آلودگی کے اثرات سے متاثر ہونے والے مریضوں سے بھر گئے ہیں، پنجاب کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ سموگ سے متاثرہ اضلاع میں 30,000 (تین لاکھ) سے زائد افراد کو سانس کی بیماریوں کا علاج کیا گیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے نے اتوار کو کہا کہ فیصل آباد، ملتان اور گوجرانوالہ کے اضلاع میں "پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریوں، الرجی، آنکھوں اور گلے کی جلن کے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ" ہوا ہے، جہاں ہوا کے معیار کی اوسط سطح "خطرناک حد تک خطرناک تھی۔ "
صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت سکولوں اور سرکاری دفاتر کو پہلے ہی 17 نومبر تک بند رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جمعہ کو پنجاب کے حکام نے 18 اضلاع کے تمام پارکس، کھیل کے میدانوں، میوزیم، چڑیا گھروں اور تاریخی مقامات کو 10 دن کے لیے بند کر دیا۔
پیر کے روز نئی پابندیوں نے لاہور سمیت چار اضلاع میں کھیلوں کی سرگرمیوں، نمائشوں، تہواروں اور ریستورانوں میں آؤٹ ڈور ڈائننگ سمیت تمام بیرونی سرگرمیوں پر بھی پابندی لگا دی۔ نئی پابندیوں کے مطابق بازار، دکانیں اور مالز رات 8 بجے تک بند ہو جائیں گے۔ انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے مطابق فارمیسیوں، پٹرول پمپس اور ضروری خوراک اور میڈیکل اسٹورز ک کو 8 بجے بندش سے استثناء دیا گیا ہے۔
ای پی اے کے ترجمان ساجد بشیر نے اے پی کو بتایا کہ تازہ پابندیاں لوگوں کو گھر پر رکھنے اور غیر ضروری سفر سے بچنے کے لیے بنائی گئی ہیں جو ان کی صحت کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔
"خاص طور پر تشویش کی بات وہ بچے ہیں جو سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہیں کیونکہ ان کے جسم، اعضاء اور مدافعتی نظام ابھی تک مکمل طور پر تیار نہیں ہوئے ہیں۔"
پنجاب میں ماحول کی آلودگی کو لے کر خوف پھیلانے کی دوڑ میں اقوام متحدہ کا بچوں کے لئے کام کرنے والا ادارہ یونی سیف سب سے آگے نکل گیا ہے۔ یونی سیف نے، جس کے پروجیکٹس پنجاب کے دیہات تک رہے ہیں، یقین کے ساتھ بتایا ہے کہ " سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں 5 سال سے کم عمر کے 11 ملین سے زائد بچے سموگ کا شکار ہیں۔"
پاکستان میں یونیسیف کے نمائندے عبداللہ فادیل نے کہا، "جیسے کہ صوبہ پنجاب میں سموگ بدستور برقرار ہے، میں ایسے چھوٹے بچوں کی صحت کے بارے میں بہت فکر مند ہوں جو آلودہ، زہریلی ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔" "چھوٹے بچے فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پھیپھڑے چھوٹے ہوتے ہیں اور عمر کے ساتھ ساتھ ان میں قوت مدافعت کی کمی ہوتی ہے۔"
سیو دی چلڈرن پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر خرم گوندل نے کہا کہ ان کی تعلیم میں خلل ڈالنے کے ساتھ ساتھ، "فضائی آلودگی اور درجہ حرارت بچوں کے لیے جان لیوا خطرات کا باعث بن رہے ہیں، جن میں سانس لینے میں دشواری اور متعدی بیماریوں کا زیادہ خطرہ شامل ہے۔"
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ "فضائی آلودگی پر فوری توجہ دے" اور ہر سال آنے والے اس مسئلے کا طویل مدتی حل تلاش کرے۔
سی این این کی رپورٹ میں یہ دل چسپ اور سنسنی خیز اطلاع بھی شامل کی گئی کہ "گزشتہ ہفتے پنجاب میں حکام نے بھارتی حکومت سے اس معاملے پر بات چیت شروع کرنے کے لیے ایک خط کا مسودہ تیار کیا۔" پنجابی سیکرٹری برائے ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی راجہ جہانگیر انور نے CNN کی مقامی کنٹریبیوٹر کو بتایا کہ "ایک علاقائی اور عالمی مسئلے کے طور پر موسمیاتی ڈپلومیسی کی ضرورت ہے۔"
اپنی خوفزدہ کرنے والی رپورٹ میں مزید خوف کو ٹھونسنے کے لئے سی این این نے فضا کی آلودگی کے سبب سے اموات کے گلوبل اعداد و شمار بھی شامل کئے اور لکھا , "فضائی آلودگی سے متعلق صحت کے مسائل سے ہر سال لاکھوں لوگ مر جاتے ہیں۔نومبر 2023 میں BMJ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق فوسل فیول سے فضائی آلودگی ہر سال دنیا بھر میں 5.1 ملین افراد کو ہلاک کر رہی ہے، ۔ دریں اثنا، WHO کا کہنا ہے کہ محیطی اور گھریلو فضائی آلودگی کے مشترکہ اثرات سے سالانہ 6.7 ملین افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔"
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی بحران صرف آلودگی کو مزید بدتر بنائے گا کیونکہ شدید گرمی زیادہ شدید اور متواتر ہو جاتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی موسم کے نمونوں کو بدل رہی ہے، جس کی وجہ سے ہوا اور بارش میں تبدیلیاں آتی ہیں، جو آلودگی کے پھیلاؤ کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
اس سال کے شروع میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پتا چلا ہے کہ دنیا نے گزشتہ سال ریکارڈ مقدار میں تیل، کوئلہ اور گیس استعمال کی، جس سے کرہ ارض کو گرم کرنے والی کاربن آلودگی کو نئی بلندی پر لے جایا گیا۔
"سموگ" کا نام لے کر خوف پھیلانے والی رپورٹیں امریکہ کے بڑے میڈیا آؤٹ لیٹس میں کیوں شائع ہوئیں اس کی وجہ غالباً لاہور میں جنریٹ ہونے والی "خبریں" ہیں جن میں ماحول کی واقعتاً آلودگی کے متعلق حقائق انتہائی تھوڑے سامنے آ رہے ہیں جبکہ "سموگ" کے متعلق مفروضوں کی بھرمار ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں سموگ تدارک کیس کی سماعت
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کرین نے قرار دیا ہے کہ "سموگ اس سال ستمبر میں آئی"،
انہوں نے یہ بھی پیشین گوئی کی کہ "آئندہ سال سموگ اگست میں آئے گی"
جج نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو مستقل پالیسی لانا ہوگی, "ایسے کام نہیں چلے گا".
جج نے "انکشاف" کیا کہ "ٹرانسپورٹ سیکٹر 70سے 80فیصد آلودگی کا سبب ہے"، وفاقی حکومت کو بھی اس معاملے میں آن بورڈ ہونا پڑے گا، جج نے "سموگ" کے متعلق اپنا "نالج" عدالت میں شئیر کرتے ہوئے بتایا کہ "بیجنگ کی تمام صنعتیں شہر سے باہر منتقل کی گئیں"،
جج نے یہ بھی مشورہ دیا کہ ""سموگ"سے نمٹنے کیلئے 10سال کی پالیسی بنانا ہوگی"،
جج نے مزید کہا، "سوچنا پڑے گا لاہور کے اندر موجود انڈسٹری کا کیا کرنا ہے"،جب عدالت کو پتہ چلتا ہے تو پھر کارروائی ہوتی ہے،
جج نے مزید کہا، "لاہور میں بڑے تعمیراتی پراجیکٹس کو روکنا پڑے گا۔"
جسٹس شاہد کریم نے مزید کہا کہ "جو سموگ آ گئی ہے یہ ختم نہیں ہوگی، جنوری تک جاری رہے گی"،
جسٹس شاہد کریم نے یہ بھی استفسار کیا، "کیا گورنمنٹ نے نوٹفکیشن جاری کیا ، کہ دھواں دینے والی گاڑیوں کو ایک لاکھ جرمانہ ہوگا", جسٹس شاہد کریم نے یہ خیال آفریں ریمارکس بھی دیئے،" ، جب تک بھاری جرمانے نہیں کئے جائیں گے ، اس وقت تک یہ معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا"،
جسٹس شاہد کریم نے مزید کہا، "سپیڈو بسیں بہت زیادہ دھواں چھوڑتی ہیں۔"
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی۔
یہ سب باتیں لاہور کے مال روڈ پر واقع لاہور ہائی کرٹ کی عمارت میں منگل کے روز جسٹس شاہد کریم کی عدالت میں "سموگ تدارک کیس" کے نام سے مشہور ایک طویل عرصہ سے چل رہے مقدمہ کی سماعت کے دوران کہیں۔ ان باتوں کی اپنی جگہ اہمیت ہے، پنجاب کی حکومت نے منگل کے روز اور اس سے زرا پہلے کیا کیا اسے ایک نظر دیکھیئے؛
پنجاب حکومت کے حالیہ اقدامات
پنجاب حکومت نے کچھ روز پہلے لاہور میں سپیشل ایجوکیشن کے تمام سکول تین ماہ کیلئے بند کر دیئے تھے، کیونکہ ماحولیات کے ڈائریکٹر جنرل کو خدشہ تھا کہ مختلف نوعیت کی جسمانی یا ذہنی معذوریوں کا شکار بچے فضا میں موجود آلودگی سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد پنجاب حکومت نے تمام پرائمری سکول بھی بند کر دیئے۔
اس کے بعد پنجاب کی حکومت نے "ہیوی گاڑیوں" یعنی بڑے ٹرالرز کو ٹرانسپورٹ کرنے والے بڑے ٹرکوں وغیرہ کو لاہور شہر میں داخل ہونے سے روک دیا۔
اس دوران پنجاب کی حکومت نے کئی "سٹیل ملز" بند کروا دیں۔ اس سے پہلے پنجاب کی حکومت نے دوکانوں کے باہر تکے، کباب، دِل، گردے اور فرائی کرنے والی تمام آؤٹ لیٹس کو اپنے یہ کام "بند جگہ" پر کرنے کا حکم دیا۔
اس کے بعد پنجاب کے حکومت نے چار انتظامی ڈویژنوں لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور سرگودھا میں تمام سکولوں کو بند کروا دیا۔
اس کے بعد پنجاب کی حکومت نے تمام بازاروں کو رات آٹھ بجے بند کرنے کا حکم دے دیا جس پر کل ڈندے کے زریعہ عملدرآمد کروانے کی کوشش کی گئی۔
اس کے بعد آج پنجاب کی حکومت نے یہ کیا ہے کہ سکول بند کرنے اور بازار بند کرنے کے حکم کو تمام آٹھ ڈویژنوں یعنی پنجاب بھر پو نافذ کر دیا۔
پنجاب کی حکومت نے مزید یہ کیا ہے کہ حکومت نےدفتروں کے50 فیصدعملے کو آن لائن کام پر منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔
ماحولیات کے محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل پنجاب ڈاکٹر عمران حامد نے تمام صوبائی ڈیپارٹمنٹس، محکموں کے سیکریٹریوں کو اور اداروں کے سربراہوں کو یہ ہدایت جاری کی ہے کہ وہ اپنے پچاس فیصد سٹاف کو گھر پر رہ کر "آن لائن کام" کرنے کی ہدایت کریں۔
ماحولیات کے ڈائریکٹر جنرل عمران حامد نے نوٹیفیکیشن میں لکھوایا کہ دفاتر میں صرف 50 فیصد اسٹاف کو بلایا جائے گا، 50فیصد سٹاف گھروں سے (آن لائن) کام کرنےکا پابند ہوگا، مختلف محکموں کے درمیان میٹنگز بھی آن لائن ہوں گی۔
بلاول بھٹو کا اسموگ سے پریشان شہریوں کوکراچی منتقل ہونےکا مشورہ
سابق وزیر خٓرجہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نے "سموگ پالیٹکس" میں اپنا حصہ ڈالتے، اور اپنا حصہ وصول کرتے ہوئے، سموگ سے پریشان پنجاب اور خیبر پختونخوا کے شہریوں کو مشورہ دیا کہ وہ سب کراچی آ جائیں۔
بلاول بھٹو نے سوشل پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے شہروں میں آلودگی کا ثبوت بھی پوسٹ مین شامل کیا جو بڑے شہروں میں ائیر کوالٹی انڈیکس ( اے کیو آئی) کے پوائنٹس ہیں۔
فلائٹ آپریشنز میں تعطل، موٹر ویز کی بندش
پنجاب کے میدانی علاقوں میں ماحول میں دھندلاہٹ جسے "سموگ" کہا جا رہا ہے اس کی وجہ سے فلائٹ آپریشن بھی متاثر ہ ہو رہے ہیں جب کہ موٹرویز کو بھی مختلف مقامات پر ٹریفک کے بند کرنے کے واقعات ہوئے ہیں۔ فلائت آپریشنز کے تعطل اور موٹر ویز کی بندش کی خبروں کی سنسنی خیز ٹریٹمنٹ بھی سموگ کا خوف پھیلانے والے عناصر میں شامل ہے۔