ملک اشرف: لاہور ہائیکورٹ میں ٹرائل کورٹس میں زیر التواء چالانوں کے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ,پنجاب میں تمام مقدمات میں چالان جمع ہونے کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے، " ٹرائل کورٹس میں جمع کروائی گئی رپورٹ کی تصدیق ہوگئی تو اس کیس کا فیصلہ کردیں گے۔"
لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے منشیات کےملزم عمران علی کےضمانت کے متعلق کیس کی سماعت کی۔ پراسیکیوٹرجنرل سید فرہاد علی شاہ ، ڈی آئی جی انویسٹیگیشن پنجاب اظہر اکرم ، ڈی آئی جی لیگل اویس ملک ، اسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل وقاص عمر سمیت دیگر افسران پیش ہوئے ۔
اسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل وقاص عمر نے آئی جی پنجاب کی جانب سے رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا تھا کہ تمام چالان جمع کرائے جا چکے ہیں۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم نے پراسیکیوٹرجنرل سے کہا ابھی آپ کے سامنے ایک تفتیشی افسر نے کہا ہے کہ چالان جمع نہیں ہوا ۔
پراسیکیوٹرجنرل نے جواب دیا، ٹوٹل چالان جمع ہوگئے ہیں ، کوئی چالان باقی نہیں رہ گیا ، تفتیشی افسر سے پوچھا ہے اس نے تصدیق کی ہے کہ چالان جمع ہے اور عدالت نے ابھی فرد جرم نہیں لگائی۔
چیف جسٹس نے پراسیکیوٹرجنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ نے بتانا تھا کہ کس کس کورٹ میں چالانجمع ہو چکے، کس کس کورٹ میں جمع ہونا باقی تھے۔
پراسیکیوٹرجنرل نے جواب دیا اس رپورٹ میں تمام ججز اور مقدمات جمع ہونے کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں ۔
چیف جسٹس کے استفسار پر پراسیکیوٹرجنرل نے بتایا کہ پہلے تین لاکھ چھیالیس ہزار اور اب باون ہزار مزید جمع ہونے پر تعداد زیرو ہوگئی ہے، اب تین لاکھ 80 ہزار چالان جمع ہوچکے ہیں۔ لاہور میں بھی زیر التواء چالانوں کی تعداد زیرو ہو گئی ہے۔
، پنجاب کے باقی تمام اضلاع میں چالان ٹرائل کورٹس میں جمع ہو چکے ہیں، اب کوئی چالان زیر التواء نہیں ہے۔
،چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا پولیس کی رپورٹ کے مطابق ملتان میں صرف ایک کیس باقی رہ گیا ہے۔
پراسیکیوٹرجنرل نے جواب دیا گزشتہ روز وہ بھی چالان عدالت میں جمع ہوگیا ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل نے کہا، ایک استدعا ہے کہ پولیس ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم میں سیشن کورٹ میں چالانوں کے ریکارڈ کو بھی اس شامل کیا جائے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے اسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل وقاص عمر سے کہا وہ پنجاب حکومت سے اس معاملے پر بات کریں۔
اسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل وقاص عمر نے جواب دیا کہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے افسران عدالت میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے ہی آئی ٹی بی کے افسران سے کہا کہ وہ متعلقہ افسران سے مل کر اس سسٹم ( پولیس ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم) کو اپ ڈیٹ کرکے رپورٹ دیں۔