تحریر،عامر رضا خان:آج کل سوشل میڈیا پر کالے بھونڈ کا ذکر تواتر سے کیا جارہا ہے اس کی وجہ تسمیہ کچھ بھی ہو لیکن بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر اپنے الفاظ کے نشتر چلانے شروع کردئیے ہیں، کالم نگاروں ، وی لاگروں ، بلاگروں ،تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے ڈنک (مطلب لفظوں کے ڈنک) سیدھے کرلیے کہ خود کالے بھونڈ کو بھی ان الفاظ پر شرم آئی ہوگی کہ بات کس تناظر میں ہوئی اور اسے کیا سے کیا بنادیا گیا اور جب ہم نے کالےبھونڈ پر ریسرچ کا آغاز کیا تو یہ عقدہ کھلا کہ یہ تو کوئی خطرناک جاندار یا اڑنے والا کیڑا نہیں ہے بلکہ جسے کالا بھونڈ کہا جارہا ہے وہ تو اصل میں بھنورا ہے ،وہ بھنورا جو صرف اپنے محبوب کے لیے بھنبھناتا ہے اور اسی کے گرد منڈلاتا ہے ، اور اسی کے گُن گاتا ہے اسے پوری کائنات میں صرف اپنا محبوب ہی نظر آتا ہے، یعنی یہ وفاداری میں مشہور ایک جانور سے بھی زیادہ وفادار ہوتا ہے ، اس اڑنے والے کیڑے کا اردو شاعری میں مقام تو بہت ہی اعلیٰ ہے، شاعروں نے ایسے ایسے رومانوی تصورات بیان کیے ہیں کہ اس پر پیار آنے لگتا ہے شعر پڑھیں۔
میں سو پردوں میں تجھ کو ڈھونڈ لوں گا
کہ بھنورا تیری خوشبو پہچانتا ہے
ظاہر ہے اس شعر میں عاشق کا معشوق کسی قید خانے میں قید ہے لیکن اس کی محبت ان پردوں کی محتاج نہیں وہ جہاں بھی ہو اُس کی محبت چیخ چیخ کر اپنے محبوب کو پکارے گی واہ واہ کیا تخیل ہے ؟
اب ایسے ہی ایک مایوس عاشق کے لیے جس کا محبوب قید تھا ایک شاعر نے جواباً لکھا ؎
تتلی اداس بھنورا جواں اب نہیں رہا
گلشن میں پہلے جیسا سماں اب نہیں رہا
کیا خوبصورت انداز میں شاعر نے کالے بھونڈ (بھنورے)کو سمجھایا ہے کہ
سدا نا باغے بلبل بولے
سدا نا باغ بہاراں
اب دیکھیں کہ بھنورا تڑپ بھی رہا ہو تو شاعر اس کے عشق کی تڑپ کن الفاظ میں بیان کرتے ہیں اور ایک شاعر نے پھول کے کسی اور کے اسیر ہونے پر اپنا احتجاج اور محبت کا اظہارگیت کی صنف میں کچھ ان الفاظ میں بیان کیا ۔
بھنورے نے کھلایا پھول
پھول تو لے گیا راج کمار
بھنورے تو کہنا نہ بھول،
پھول تجھے لگ جائے میری عمر
یعنی اتنی محنت سے اور جتنوں سے جو پھول کھلایا تھا وہ اب کسی راجکمار کی قید میں ہے۔ بے بسی کا عالم دیکھیں کہ تڑپ کر کالا بھونڈ (بھنورا) کہہ رہا ہے کہ میں اگر تمہیں رہائی نہیں دلا سکتا تو تمہیں میری بھی عمر لگ جائے ، کیا رومانوی کیٹرا ہے یہ کالا بھونڈ ۔
یہ تو تھی، شاعرانہ ریسرچ لیکن کالے بھونڈ پر ایک اور ریسرچ کے مطابق جو یہاں منقول کی جارہی ہے ،بھونڈ ایک ایسا اُڑنے والا کیڑا ہے جو اگر انسان کے اندر اپنا ڈنگ گھسیڑ دے تو انسان کی چیخیں نکل جاتی ہیں ۔کچھ لوگ اسے ڈیمو کے نام سے بھی پکارتے ہیں ۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں اسے اپنی زبان کے حساب سے اور بہت سے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے ۔
ویسے تو بھونڈ بہت سی قسموں کے ہوتے ہیں مگر تین قسم کے بھونڈ زیادہ مشہور ہیں ۔ پیلا ۔۔۔ براؤن اور پیلا ( دو رنگا ) اسے کابلی بھونڈ بھی کہا جاتا ہے ۔۔۔۔ تیسرا کالے رنگ کا۔
کالے رنگ کا بھونڈ دیکھنے میں جتنا خطرناک ہوتا ہے اتنا اس کا ڈنگ خطرناک نہیں ہوتا جبکہ پیلے اور براؤن پیلے رنگ کے بھونڈوں کے ڈنگ زیادہ خطرناکی لئے ہوتے ہیں ۔بڑے بوڑھے اور سیانے براؤن اور پیلے یعنی دورنگی بھونڈ کا ڈنگ زیادہ خطرناک بتاتے ہیں ۔
بھونڈ کو پنجابی میں پونڈ بھی کہا جاتا ہے ۔پنجاب میں لڑکیوں کے آس پاس مسلسل چکر لگانے والے لڑکے کو بھی پونڈ ( بھونڈ ) کے نام سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ایسا کرنے کو پونڈی کرنا بھی کہتے ہیں ۔ یہ پونڈ ( بھونڈ ) سکول اور کالجوں کے باہر بکثرت پائے جاتے ہیں ۔اسی پونڈ کو تہذیب یافتہ انداز اور شاعروں کی زبان میں بھنورا بھی کہا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ پونڈی میں تہذیب کہاں ؟
کہا جاتا ہے کہ بھونڈ یا شہد کی مکھی جب ڈنگ مارتی ہے تو جہاں ڈنگ مارا جاتا ہے وہاں شدید قسم کی درد کی لہریں چلنا شروع ہوجاتی ہیں جو انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہیں بھونڈ یا شہد کی مکھی کے ڈنگ مارتے ہی کئی لوگوں کو تو چیخیں ( چانگریں ) مارتے بھی دیکھا گیا ہے ۔
آج کل چونکہ بھونڈوں کا سیزن شروع ہو چکا ہے ۔ پھلوں کی ریڑھیوں کے آس پاس درجنوں بھونڈ آپ کو بھنبھناتے نظر آئیں گے ان میں سے کچھ شرارتی بھونڈ لوگوں کی شلوار قمیض کے اندر بھی گھس جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ بیچارے شلوار قمیض اتار کر ننگے چانگریں مار کر بھاگتے نظر آتے ہیں ۔
اگر آپ کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو گھبرائیے گا نہیں ۔۔۔
جب بھی آپ یا کسی کو بھونڈ ، شہد کی مکھی کاٹے یعنی ڈنگ مارے تو فوری طور پر پٹرول لے کر اُس ڈنگ والے حصے یعنی متاثرہ جگہ پر اچھی طرح مل لیں ۔۔۔ چند ہی لمحوں بعد ڈنگ کا اثر زائل اور درد ختم ہوجائے گا ۔
راہ چلتے ہوئے عموماً پٹرول پاس نہیں ہوتا ایسی صورت میں کسی موٹر سائکل والے کوروک کر اس سے تھوڑا پٹرول لے کر فوری طور پر متاثرہ جگہ پر اچھی طرح مل لیں ۔یاد رہے کہ یہ ہمارا آزمایا ہوا نسخہ ہے اور اسے ہم نے سوفیصد کار آمد پایا ہے ۔ہم نے اس نسخے کو بچھو اور سانپ کے کاٹے کے علاوہ تمام چھوٹے موٹے کیڑوں کے کاٹنے پر استعمال کیا ہے اور اسے سو فیصد کارآمد پایا ہے ۔
اب آپ ہی بتائیں کہ کتنی زبردست تحقیق کی ہے کسی بھائی نے کالے بھونڈ پر لیکن وہ ایک بات لکھنا بھول گئے کے بھنورے کی فطرت میں پھول کا رس چوسنا اور انسانوں کو ڈنک مارنا ہوتا ہے اس لیے جب اس سے نجات حاصل کرنا ہو تو جوتا اتاریں اور اس سے نجات پائیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے -