ویب ڈیسک: شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اس سال کے میزبان بھارت نے چین اور پاکستان کے سربراہوں کاسامنا کرنےکے خوف سے سالانہ سربراہی اجلاس 4 جولائی کو انٹرنیٹ رابطہ کے زریعہ "ورچوئلی سربراہی اجلاس" منعقد کرنے کا اعلان کر دیا۔ فائل فوٹو
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق ایس سی او کا سالانہ سربراہی اجلاس ورچوئل فارمیٹ میں ہوگا جس میں چین، پاکستان، روس سمیت تمام رکن ممالک کو مدعوکیا گیا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ نے کہا کہ ایران، بیلاروس اور منگولیا کو مبصر جبکہ ترکمانستان کو بطورمہمان مدعو کیا گیاہے۔
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان قیاس آرائیوں کے درمیان کہ چین کے صدر شی جن پنگ اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف 4 جولائی کو ایس سی او سربراہی اجلاس کے لیے بھارت کا دورہ کریں گے یا نہیں، مودی حکومت نے منگل کو اعلان کیا کہ وہ درحقیقت انٹرنیٹ کے زریعہ سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گی۔ اس وقت یوریشین گروپ کی صدارت ہندوستان کے پاس ہے اور اس نے اس ماہ کے شروع میں گوا میں ایس سی او کے وزرائے خارجہ کی ایک معمول کا جسمانی اجلاس منعقد کیا تھاجس میں پاکستان سمیت تمام رکن ممالک کے وزرا خارجہ نے شرکت کی تھی۔
ہندوستان نے اس سے قبل تمام رکن ممالک کے رہنماؤں کو سربراہی اجلاس کے لیےمدعو کرنے کا عندیہ دیا تھا -بھارتی میڈیا کے مطابق نریندر مودی کے لئے اپنے ملک میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں چین کے صدر ژی جن پنگ اور شریف دونوں کے سامنے آنے میں مسائل کا سامنا محسوس ہوا ہو گا جس کی وجہ سے انہوں نے پورے سربراہی اجلاس کو ہی آن لائن اجلاس میں بدل دیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اس وقت مودی حکومت کے چین کے ساتھ تعلقات سرحدی تنازعہ کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں اور پاکستان کے ساتھ تعلقات انتہائی نچلی سطح کے قریب ہیں۔
ہندوستان کے ایک ورچوئل سربراہی اجلاس کی میزبانی کے فیصلے کا مطلب یہ بھی ہے کہ صدر ژی پنگ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کو ہندوستان کا بیک ٹو بیک دورہ نہیں کرنا پڑے گا، کیونکہ حکومت ستمبر میں جی 20 سربراہی اجلاس کی میزبانی کے لیے بھی تیار ہے۔ ہندوستان میگا ایونٹ کے لئے دونوں رہنماؤں کو دیکھنے کی امید کرے گا کیونکہ وہ یوکرین کے مسئلے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے کام کرتا ہے جس سے جی 20 مشترکہ رہنماؤں کے اعلان کی اجازت ہوگی۔
ہندوستان کے اس بات کو برقرار رکھنے کے ساتھ کہ چین کے ساتھ تعلقات معمول کے نہیں ہیں، مودی اور ژی نے اپریل-مئی 2020 میں مشرقی لداخ میں جاری فوجی تعطل کے بعد سے دو طرفہ ملاقات نہیں کی ہے، حالانکہ ان کے وزرائے خارجہ کے درمیان کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ اگر بھارت شنگھائی تعاون کونسل کا سربراہی اجلاس جولائی میں معمول کے مطابق منعقل کرتا تب بھی شہباز شریف کے ساتھ مودی کی ملاقات کا امکان کم ہوتا کیونکہ پاکستان کی قیادت مودی کے اگست 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام پر سخت شاکی ہے اور اسے کسی صوررت بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔