سٹی 42: اسرائیل عرب خطے میں ایک ناسور کی مانند موجود ہے،تمام ممالک اس سے تنگ ہیں، اسرائیل نے فلسطین کی سرزمین پر ناجائز قبضہ جما رکھا ہے،یہاں بسنے والے یہودی بیت المقدس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کوئی بھی مسلمان اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔اب معلوم ہوا ہے کہ اسرائیل میں بھنگ جلا کر عبادت کی جاتی تھی ۔
آثار قدیمہ کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بنی اسرائیل قدیم دور میں عبادت کے دوران معبدوں میں بھنگ جلاتے تھے۔ اسرائیل میں دو ہزار سات سو سال پرانے ایک معبد کے اثرات سے کچھ ایسے کیمیائی اجزا ملے ہیں جس کا سائنسی تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ بھنگ کے اجزا ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے معبد میں عبادت کے دوران بھنگ اس لیے جلائی جاتی ہو تاکہ لوگوں پر وجدانی کیفیت طاری ہو جائے، اسرائیل کے ذرائع ابلاغ میں کہا جا رہا ہے کہ یہودیوں کی عبادت کے دوران منشیات کے استعمال کا یہ پہلا ثبوت ہے۔ اسرائیل کے شہر تل ابیب سے 95 کلومیٹر جنوب میں صحرا النقب میں سنہ ساٹھ کی دہائی میں اس معبد کے آثار دریافت ہوئے تھے۔
تل ابیب یونیورسٹی کے آثار قدیمہ کے جریدے میں شائع ہونے والی تازہ تحقیق میں ماہرین آثار قدیمہ نے کہا ہے کہ چونے کے پتھر کے دو چبوترے معبد کی باقیات میں دبے پائے گئے اور بھنگ کے اجزا ان ہی کے اوپر محفوظ تھے۔اس علاقے میں خشک موسم اور ملبے میں دبے ہونے کے باعث ان چبوتروں پر جو نذر نیازیں چڑھائی جاتی تھیں، اس کے ذرات محفوظ رہے۔اس تحقیق کے مصنف نے اسرائیلی اخبار کو بتایا کہ مقدس کتاب میں اس کے نمایاں ذکر کی وجہ یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ لوبان کی طرح کے مادے کے ذرات اس معبد میں پائے گئے ہیں۔
اس تحقیق میں یہ کہا گیا ہے کہ آرد کی اس دریافت کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ بیت المقدس میں موجود معبدوں میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا۔یہودیوں کی یہ عبادت گاہ قدیم دور میں یہوداہ کی سلطنت کی جنوبی سرحد پر واقع ایک پہاڑی پر بنائے گئے قلعے کا حصہ تھی اور اس کا نقشہ یروشلم میں یہودیوں کے پہلے معبد جیسا تھا۔ماہرین آثار قدیمہ کو یروشلم میں موجود اس معبد کے آثار تک رسائی حاصل نہیں، اس لیے وہ آرد اور دوسری قدیم عبادت گاہوں کے آثار پر تحقیق کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قدیم دور میں عبادت کس طرح کی جاتی تھی۔