برسوں بلکہ عشروں سے سنتے آ رہے ہیں کہ ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا ، کئی برس اور کئی عشرے گذر گئے ، ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والے بڑھتے ہی چلے گئے لیکن آہنی ہاتھ کبھی نظر نہ آئے ، یہاں تک کہ آہنی ہاتھ کا استعارہ مذاق بن کر رہ گیا ، لیکن پھر یوں ہوا کہ 9 مئی ہو گیا ۔
ریاست کی رٹ کے حوالے سے یہ Now or Never یعنی "اب یا کبھی نہیں" والا مرحلہ فکر آ گیا تھا ، قدرت نے اس موقع پر حکومت اور عسکری قیادت کو آہنی عزم سے نوازا ، اور پھر دنیا نے ریاست کے آہنی ہاتھ دیکھ ہی لئے ۔
فتنہ ، شرانگیزی اور بغاوت کا مقابلہ اگر آہنی عزم اور آہنی ہاتھوں سے نہ کیا جائے تو گومگو کی یہ صورتحال ریاستوں کی بقا اور سلامتی تک کو خطرے میں ڈال دیتی ہے ، اس لیئے فیصلہ سازوں نے 9 مئی کو وہ فیصلہ کیا جو وقت کی ضرورت تھا ۔ سانحہ 9 مئی کے مجرموں کو قانون کے شکنجے میں لانے کا عمل شروع ہوا تو فتنہ گروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ، اب کے نئے شکوک و شبہات اور نئے ابہام کا طوفان اٹھایا گیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ سانحہ 9 مئی کے ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی بیل کبھی منڈھے نہیں چڑھے گی لیکن اب آخر کار دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ معاملے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم اور ارادہ بھی آہنی ہے ۔
گوجرانوالہ کینٹ میں 9 مئی دہشتگردی کیس کی انسداد دہشت گرد عدالت میں تفصیلی سماعت کے بعد تمام 51 ملزمان کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت پانچ پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے ، اس مقدمے میں ملوث تمام 51 ملزمان پی ٹی آئی کارکنان ہیں اور گرفتار ہیں , مجرموں میں ایم پی اے کلیم اللہ بھی شامل ہے ۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت گوجرانوالہ نے جس 09 مئی کیس نمبر ATA 823/23 کا فیصلہ سنایا وہ تھانہ گوجرانوالہ کینٹ میں درج کیا گیا تھا ، اے ٹی سی جج نتاشا ندیم سپرا کی عدالت میں 51 ملزمان کے خلاف تفصیلی سماعت کے بعد ٹرائل مکمل ہوا اور سزائیں سنا دی گئیں ، اس فیصلے کو بارش کا پہلا قطرہ قرار دیا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اب ملک کے دوسرے اضلاع میں زیر سماعت 9 مئی دہشتگردی کیسز کے فیصلے بھی آنا شروع ہو جائیں گے ۔
گوجرانولہ کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مختصر فیصلہ سنایا ہے ، تفصیلی حکم بعد میں جاری کیا جائے گا ، تمام ملزمان پی ٹی آئی کے سرگرم اور فعال کارکنان ہیں ، گوجرانولہ میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کا ٹرائل دوسرے مرحلے میں کیا جائے گا۔ان کی بڑی تعداد گرفتار ہے اور مختلف جیلوں میں بند ہے جبکہ کچھ ملزمان مفرور ہیں ۔
سانحہ 9 مئی کے انتہائی افسوس ناک واقعات کو ان کے اس منطقی انجام تک پہنچانا اس لئے بھی ناگزیر تھا کہ گوجرانولہ میں سزائیں سنانے کے اس پہلے عدالتی فیصلے سے ڈیٹرنس بڑھے گا اور 9 مئی کے دیگر کیسز میں فیصلوں کیلئے راہ ہموار ہوگی ، یہ ٹرائل جرم کے فوراً بعد جتنی جلدی مکمل ہو جاتا اور سزا سنا دی جاتی اتنا ہی بہتر تھا ۔ تاہم دیر آید درست آید کے مصداق جو کچھ نتیجہ اب نکل آیا ہے اسے بھی اطمینان بخش قرار دیا جا رہا ہے-
بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی ریاست سے ٹکرانے کے اس راستے پر کیوں چلے ؟ یہ بڑا سوالیہ نشان ہے ، کہا جا رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو غلط مشورے دینے والے نہ تو عمران خان کے خیرخواہ تھے ، نہ پی ٹی آئی کے اور نہ ہی ملک و قوم کے ۔۔۔۔۔ لیکن عمران خان کو خود بھی سوچنا چاہئے تھا کہ جس راستے پر وہ گامزن ہیں اس راستے کے آخری سرے پر نہایت خطرناک اور گہری کھائی ہے اور معلوم نہیں کب اچانک وہ کھائی سامنے آجائے اور پھر 9 مئی کو وہ کھائی سامنے آ ہی گئی ۔
پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین اور قیادت نے یہ کیوں اور کیسے سمجھ لیا اور ان کے کس بدخواہ نے ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ وہ عوامی اور سیاسی دباؤ ڈال کر اداروں اور ریاست کو زیر کر لیں گے ، ایک بار پھر حصول اقتدار کیلئے سیاسی و جمہوری جدوجہد کے مروجہ صاف اور سیدھے راستے پر چلنے کی بجائے انہوں نے ایک ایسے دشوار گذار شارٹ کٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی جو دلدلی جنگلات سے ہو کر گذرتا تھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ فتنہ گروں کا یہ پورا لشکر اس میں دھنس گیا اور اب باہر نکلنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے ۔
پی ٹی آئی کی کوتاہ اندیش اور ناتجربہ کار قیادت نے اداروں اور ریاست کے خلاف سازشوں ، بدزبانی اور بلیک میلنگ کو جب اپنا مستقبل شعار بنا لیا اور اپنے خلاف درج کیسز کو مذاق سمجھنا شروع کر دیا تو یہی غلط فہمی آخر کار انہیں اس دلدل میں دھنسانے کا باعث بن گئی۔
بڑے پیمانے پر فتنہ گری ، شر اور فساد فی الارض کسی ایک گروہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے ساتھ دشمنی ہے ، اگر ذہن ایک بار شدت پسند خیالات اور پرتشدد رجحانات سے پراگندہ ہو جائے تو اس کا "علاج" کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے ، کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو یہ فتنہ گر دہشت گرد پورے معاشرے کو مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں ، پی ٹی آئی کے اس مخصوص مائنڈ سیٹ کی وجہ سے ریاست پاکستان کے ایک طرح کی سیاسی و معاشی دلدل میں پھنس کر رہ جانے کا سنگین خطرہ پیدا ہو گیا تھا ، سانحہ 9 مئی کے ملزمان سے قانون و آئین کے مطابق نمٹنے سے یہ خطرہ ٹل گیا ہے ، دنیا میں ایسے گروہوں سے نمٹنے کیلئے مختلف ریاستیں اور حکومتیں ماورائے آئین و قانون راستے بھی اختیار کرتی ہیں اور فتنہ گروں کے لشکروں کو انتہائی بے رحمی سے کچل دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ریاست نے قانون و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اس معاملے کو عدالتوں کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچانے کا محفوظ اور رحمدل راستہ چنا گیا ہے جو خوش آئند ہے ۔ انصاف کی عملداری کے ذریعے فتنہ ، شرانگیزی اور بغاوت سے نمٹنے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ملزمان کو اپنے کئے کی سزا بھگتنے کے بعد نارمل لائف میں واپسی کا چانس مل جاتا ہے ۔
امید کی جانی چاہیئے کہ سانحہ 9 مئی سے نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی قوتیں سبق حاصل کریں گی اور گوجرانولہ میں سنائے گئے پہلے فیصلے سے جس منطقی انجام کا آغاز ہوا ہے اسے ایک نئی شروعات کیلئے مثبت سوچ کے تحت اپنے اپنے سیاسی لائحہ عمل کی از سر نو تشکیل کیلئے نیک نیتی کے ساتھ استعمال کیا جائے گا تاکہ ملک دوبارہ کسی ایسے افسوسناک امتحان سے دوچار نہ ہو جو قوموں کو ترقی و خوشحالی کے سفر میں پٹڑی سے ہی اتار دیتا ہے ۔