ویب ڈیسک : ہر مریض کے اب اس کے ڈی این اے کے مطابق اس کو ادویات دی جائیں گی۔ برطانیہ میں اگلے سال سے فارماکوجنومک نظام نافذ کردیا جائے گا
رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس نےآئندہ برس سے جینیاتی ٹیسٹ نافذ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ جینیاتی ٹیسٹ ایک سو پاؤنڈ میں کیا جا سکتا ہے اور یہ ٹیسٹ خون یا لعاب کے نمونے کے ذریعے کیا جائے گا۔
چند ادویات کا استعمال کسی کے لیے غیر مؤثر یا مہلک ہو جاتا ہے جسے دوا کا ری ایکشن یا سائڈ ایفکٹ کہا جاتا ہے کیونکہ سب جسم ایک طرح کام نہیں کرتے اور ان میں انتہائی باریک فرق ہوتا ہے۔ تاہم جینیاتی ٹیسٹ کرنے سے ہم اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کوئی دوا کسی ایک انسان پر کیسے اثر کرے گی۔
کسی بھی انسان کا ڈی این اے یا جنیاتی کوڈ اس کے جسم کے متعلق ایک کتابچے کی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ انسانی جسم کام کیسے کرتا ہے۔ ادویات کا ڈی این اے کے مطابق استعمال کرنے کو فارماکوجینومکس کہا جاتا ہے۔برٹش فارماکولوجیکل سوسائٹی کے منتخب صدر پروفیسر مارک کالیفیلڈ کا کہنا ہے کہ '99.5 فیصد افراد کے جنیاتی کوڈ یا ڈی این اے میں کوئی ایسا جنوم ہوتا ہے کہ اگر ہم غلط دوا استعمال کریں تو یا تو وہ غیر مؤثر ہوتی ہے یا نقصان پہنچاتی ہے۔
برطانیہ میں 50 لاکھ سے زائد افراد کو کوڈین نامی دوا سے درد میں کمی نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان کے ڈی این اے یا جنیاتی کوڈ میں وہ ہدایات شامل نہیں ہے جو کوڈین نامی دوا کو مارفین میں تبدیل کریں اور مریضوں کو درد سے نجات دلائیں ۔اسی طرح سائنسدانوں کے مطابق 500 افراد میں سے ایک شخص ایسا ہوتا ہے جس کے جینیاتی کوڈ یا ڈی این اے کے مطابق اگر وہ جینٹامائسین انٹی بائیوٹک استعمال کرے تو اس کے سماعت سے محروم ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اگر اب دوا تجویز کرنے سے قبل کسی مریض کے ڈی این اے کا تجزیہ کر لیا جائے تو دوا کے غیر مؤثر اور نقصان دہ ہونے کا خطرہ صفر ہو جاتا ہے۔مستقبل میں یہ خیال ہے کہ یہ ٹیسٹ کسی بھی بچے کی پیدائش کے وقت ہی کیا جائے اور یا پھر یہ معائنہ 50 سال کی عمر میں روٹین چیک کا حصہ ہو گا۔
یونیورسٹی آف لیورپول کے پروفیسر سر منیر پیر محمد کا کہنا ہے کہ ایک دوا سب کے لیے‘ کی سوچ سے آگے بڑھنا ہو گا تاکہ ہم ہر انسان کے مطابق دوا تجویز کر سکیں اور مریضوں کو درست نوعیت کی دوا فراہم کی جا سکے۔نیشنل ہیلتھ سروسز انگلینڈ کے چیرمین لارڈ ڈیوڈ پرائر کا کہنا تھا کہ یہ طب کی دنیا میں ایک انقلاب ہے۔