ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایران میں شہید ہونے والے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کون تھے؟

ایران میں شہید ہونے والے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کون تھے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: فلسطین کے سابق وزیراعظم اسماعیل ہانیہ حماس کے سیاسی سربراہ اور حماس کے پولیٹیکل بیورو کے چیئرمین تھے، 2017 میں انہیں خالد مشعال کی جگہ حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

اسماعیل ہنیہ کا شمار حماس کے انتہائی اولوالعزم رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے زندگی بھر فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف جدوجہد کی اور کسی بھی مرحلے پر اُن کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ اسرائیلی قیادت اور فوج دونوں ہی اسماعیل ہنیہ کی سرگرمیوں کی خبر رکھتی تھیں اور ان کی نقل و حرکت کو باقاعدگی سے مانیٹر کیا جاتا تھا۔

اسماعیل ہانیہ غزہ شہر کے قریب ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1980 کی دہائی کے آخر میں حماس میں شمولیت اختیار کی اور تیزی سے حماس کے بانی اور روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھی بن گئے۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں اسماعیل ہنیہ نے اسرائیلی جیلوں میں کئی سزائیں کاٹیں۔ 2006 کے قانون ساز انتخابات میں حماس کی جیت کے بعد وہ فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کے وزیر اعظم بن گئے۔ تاہم یہ قلیل مدتی رہا کیونکہ اگلے سال انہیں 2007 میں صدر محمود عباس نے ان کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔ 10 برس بعد 2017 میں انہیں حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ اسی سال، اسماعیل کو امریکا نے ”خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد“ قرار دیا تھا۔

ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک حملے میں شہید ہونے والے  اسماعیل ہانیہ کے پورے خاندان نے فلسطین کاز کے لیے قربانی دی ہے۔ عیدالفطر کے موقع پر ایک حملے میں اسماعیل ہانیہ کے تین بیٹوں اور پوتے سمیت اُن کے خاندان کے 10 افراد شہید ہوگئے تھے۔ غزہ میں اسماعیل ہانیہ کے گھر پر کیے جانے والے حملے میں اُن کی ایک بہن بھی شہید ہوئی تھی۔ الجزیرہ کو انٹرویو میں اسماعیل ہنیہ نے بتایا تھا کہ اسرائیلی فوج کے حملے میں ان کے بیٹے ہازم، عامر اور محمد اور ان کے پوتے شہید ہوئے۔ ایک اسرائیلی اخبار نے اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے 14 افراد کی شہادت کا دعوٰی کیا تھا۔ ایران میں شہید ہونے والے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کون تھے؟

چند ہفتوں کے دوران غزہ میں اسرائیلی جارحیت بھی بڑھ گئی تھی اور اسرائیلی فوج پر حملوں میں بھی شدت آگئی تھی۔ حماس کے علاوہ اب یمن کی حوثی ملیشیا اور لبنان کی حزب اللہ ملیشیا بھی میدان میں ہیں۔ ان سب نے باری باری اسرائیل کی حدود میں متعدد مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل میں خوف بڑھا ہے اور اسرائیلی قیادت کی بدحواسی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

اسماعیل نے کسی بھی اپنی جدوجہد کے کسی بھی موڑ پر سمجھوتے یا اصولوں پر سودے بازی کی بات نہیں کی۔ اُن کی زندگی اس اصولی موقف کے گرد گزری کہ فلسطین کی آزادی پر کسی حال میں سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ یہی سبب ہے کہ اسرائیلی حکومت اور فوج دونوں ہی اُنہیں شہید کرنے کے درپے رہتی تھیں اور بالآخر اُنہوں نے اپنا یہ مقصد حاصل کرہی لیا۔ اسماعیل ہنیہ کی قیادت میں حماس نے اپنے آپ کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف ثابت قدم رہنے کے لیے اچھی طرح تیار کیا۔ حماس کے کارکنوں کے لیے اسماعیل ہنیہ کا حوصلہ مشعلِ راہ کے مانند تھا۔ وہ اپنی تقریروں میں انتہائی جوش و خروش کے ساتھ اس نکتے پر زور دیتے تھے کہ کامیابی یا ناکامی کے بارے میں زیادہ سوچے بغیر ہمیں اپنے کاز پر دھیان دینا چاہیے۔

خیال کیا جارہا تھا کہ اپنے بیٹوں، بہن اور پوتے کی شہادت سے اسماعیل ہنیہ کے پائے استقامت میں لغزش پیدا ہوگی اور وہ اب اپنے موقف میں کسی حد تک نرمی پیدا کرنے پر مائل ہوں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ اسماعیل ہنیہ کا یہ موقف مرتے دم تک برقرار رہا کہ اسرائیل سے فلسطینی مقبوضہ علاقے خالی کرانے تک سُکون سے نہیں بیٹھا جاسکتا اور فلسطینی شہدا کے خون سے کسی طور غداری نہیں کی جائے گی۔