ویب ڈیسک: بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے منی پور میں خواتین کو برہنہ کرنے کے واقعے کی تفتیش کے دوران اعتراف کیا کہ عورتوں کے خلاف جرائم پورے بھارت میں ہو رہے ہیں لیکن منی پور میں جو ہوا اس نے دل دہلا دیا، سر عام عورتیں برہنہ کی گئیں، ان پر تشدد ہوا، ان کا ریپ ہوا، پولیس نے خواتین کی مدد کے بجائے خود عورتیں تشدد کرنے والوں کے حوالے کیں، پولیس نے مقدمہ بھی تب درج کیا جب ویڈیو سامنے آگئی۔
بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈاکٹر جسٹس دھننجایا نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے منی پور واقعے پر وزیراعظم نریندر مودی اورر ان کی حکومت کی طرح بھارت کی سپریم کورٹ بھی تین ماہ سے مسلسل خاموش رہے۔ جب دو ماہ پہلے ہونے والے مجمع کے ریپ کی وڈیو ساری دنیا میں شدید غم و غصہ کا باعث بن گئیں تو مجبوراً بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس واقعہ کا ازخود ٹو نوٹس لیا ہے۔
منی پور واقعہ پر شہریوں کی سخت تنقید کے جواب میں نریندر مودی کی حکومت کے کئی ارکان نے ڈھٹائی کے ساتھ کہنا شروع کر دیا کہ عورتوں پر مظالم مغربی بنگال، چھتیس گڑھ میں بھی ہوتے ہیں۔ یہی بات سرکاری وکیل نے سپریم کورٹ میں کی تو چیف جسٹس برہم ہوگئے اور کہا کہ تلخ حقیقت ہے کہ پورے بھارت میں عورتوں کیخلاف جرائم ہورہے ہیں لیکن ایک جگہ ہونے والا جرم دوسری جگہ کے جرم کا جواز نہیں بن سکتا، حکومت کا کام ہے کہ جرائم کی روک تھام کرے، منی پور کی مظلوم خواتین کو انصاف ان کی دہلیز پر فراہم کرے۔ کیس کی مزید سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے کہ منی پور کے دارالحکومت اپمھال کے نواح میں انتہا پسندی کا شکار ہندو قبائلی اکثریتی قبیلہ کے سینکڑوں افراد نے جن دو خواتین کو سر عام ریپ کیا ان میں سے ایک خاتون کے شوہر سابق بھارتی فوجی ہیں۔ مظلوم خاتون کے شوہر نے اس واقعہ کے حوالہ سے میڈیا کے سامنے کہا کہ میں نے کارگل میں بھارت کا دفاع کیا لیکن خود اپنی بیوی کو نہیں بچا سکا۔