ملٹری ٹرائل کیس، آئین سے منافی کوئی قانون برقرار نہیں رہ سکتا: جسٹس امین الدین خان 

31 Jan, 2025 | 11:20 AM

 ویب ڈیسک:فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین سے منافی کوئی قانون برقرار نہیں رہ سکتا۔

 جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کررہا ہے۔

 سماعت کا آغاز ہوا تو سابق چیف جسٹس، جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عام سویلین ملٹری ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں، افواج پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔

 جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا ایئر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد انہ حملہ ہوا اور 9 مئی پر احتجاج ہوا دونوں واقعات کے سویلین میں کیا فرق ہے؟

 وکیل احمد حسین نے جواب دیا کہ آرمی پبلک سکول پر دہشت گردی کا حملہ ہوا، اے پی ایس واقعہ کے بعد 21ویں ترمیم کی گئی جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ اے پی ایس میں سارے سویلین بچے مارے گئے ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ ہمارا مقدمہ آئین سے باہر نہیں ہے،9 مئی والوں کا ٹرائل ہو لیکن ملٹری نہیں۔

 آئینی بنچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ آئین سے منافی قانون برقرار نہیں رہ سکتا۔

 سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے 9 مئی پر افواج پاکستان کے اعلامیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آر نے 9 مئی واقعہ پر 15 مئی کو اعلامیہ جاری کیا جس پر عدالت نےا ستفسار کیا کہ کیا آپ کو اعلامیہ پر اعتراض ہے؟

 ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ میرا اعلامیہ پر کوئی اعتراض نہیں، اعلامیہ میں کہا گیا 9 مئی پر پورے ادارہ میں دکھ اور درد پایا جاتا ہے، 9 مئی کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں، کور کمانڈر اجلاس اعلامیہ کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے؟ 

مزیدخبریں