سٹی42: راولپنڈی میں سائفر کیس کی آخری سماعت میں پی ٹی آئی کے بانی نے سیکشن342 کا جو بیان دیا اس میں انہوں نے کہا کہ آج میں سائفر کی اصل سازش کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔
عمران خان نے خصوصی عدالت کے روبرو 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کے لئے روسٹرم پر آ کر بتایا کہ سائفر میرے آفس میں تھا، ذمہ داری پرنسپل سیکرٹری اور ملٹری سیکرٹری کی ہوتی ہے۔میں بتانا چاہتا ہوں کہ اصل سازش کیسے ہوئی۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ان کے بظور وزیر اعظم ساڑھے 3 سال کے دوران صرف سائفرکی ایک دستاویزغائب ہوئی، سائفرگمشدگی پر ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ اس کی انکوائری کرو جس پر ملٹری سیکرٹری نےکہا انکوائری کی لیکن سائفر کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ 2 کروڑ 30 لاکھ ووٹوں سے منتخب وزیراعظم کو نکالا گیا، منتخب وزیراعظم کےخلاف سازش میں جنرل باجوہ اور ڈونلڈ لو شامل تھے، حسین حقانی نے جنرل باجوہ کے کہنے پرمیرے خلاف لابنگ کی۔
انہوں نے اپنے 342 کے بیان میں مزید کہا کہ جنرل باجوہ سے ملاقات کے لئے میں نے تین رکنی کمیٹی بنائی تھی، کمیٹی میں اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک شامل تھے، جنرل باجوہ نے کمیٹی کو کہا اپنی سمت درست کرو، ورنہ12 سال کے لیے اندر جاؤگے، روس سے واپس آیا تو شاہ محمود قریشی نے مجھے سائفرپیغام سےآگاہ کیا۔ اس دوران میری باجوہ سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔
عمران خان کے اس بیان کے بعد عدالت کی مزید کوئی سماعت نہیں ہوئی کیونکہ مقدمہ کی کارروائی تمام ہو چکی تھی اور 30 جنوری منگل کو سائفر کیس کی خصوصی عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10،10 سال قید کی سزا سنائی۔
342 کے بیان میں اپنے ہی مؤقف کے برعکس چلے گئے
عمران خان کا بنیادی دعویٰ اب بھی یہ ہے کہ امریکہ نے ان کو حکومت سے نکلوانے کے لئے جنرل قمر جاوید باجوہ کو سائفر کے زریعہ پیغام بھیجا۔ اس دعوے کے برعکس 342 کے بیان مین انہوں نے عدالت کو بتایا کہ دراصل جنرل قمر باجوہ ان کے خلاف ہو گئے تھے اور انہوں نے واشنگٹن میں مقیم پاکستانی دانش ور حسین حقانی کو امریکہ کی حکومت کے عہدیداروں سے عمران خان کے خلاف لابنگ کرنے کی اسائنمنٹ دی۔ عمران خان کے یہ دونوں دعوے متضاد ہیں اور انہوں نے عدالت مین سائفر کیس کی سماعتوں کے دوران ان دونوں دعووں میں سے کسی کے بھی اثبات مین ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ دونوں دعوے بنیادی حقیقت، کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے بیشتر ارکان ان سے تنگ آئے ہوئے تھے، اس سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے استعمال ہوئے اور سائفر کیس کی آخری سماعت تک عمران خان اپنی اس کوشش سے تائب نہیں ہوئے۔
سائفر گیٹ کیا ہے؟
جب 2022 میں چئیرمین پی ٹی آئی کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو گئیں اور پی ٹی آئی کے اندر ان کی کارروائیوں اور طرز حکومت سے تنگ آئے ہوئے ارکان پارلیمنٹ بھی ان کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ گفت و شنید کرنے لگے اور اپوزیشن پارٹیوں نے مل کر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے امریکہ میں پاکستانی سفیر کے مراسلے یا سائفرکو بنیاد بنا کر اپنی حکومت کے خلاف سازش ہونے کا دعویٰ کر دیا تھا اور اس دعوے کی بنیاد پر پہلے انہوں نے عوام کو سائفر کے متعلق غلط معلومات بتائیں پھر اس دعوے کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لئے بلائے گئے اجلاس مین عمران خان کے ساتھی ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہی کروانے سے انکار کر دیا اور یہ عجیب رولنگ دی کہ کیونکہ یہ تحریک عدم اعتماد سائفر کے نتیجہ میں پیش کی گئی ہے اس لئے یہ غیر ملکی سازش ہے اور میں اس کو مسترد کرتا ہوں۔قاسم سوری کی متنازعہ رولنگ کو بعد ازاں پاکستان کی سپریم کورٹ نے کالعدم کر دیا، قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ ہوا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوئی اور عمران خان ہار گئے۔ وزارت عظمیٰ سے محروم ہونے کے بعد عمران خان مسلسل یہ بتاتے رہے کہ انہیں امریکہ نے سائفر کے زریعہ سازش کر کے حکومت سے نکلوایا ہے۔ حالانکہ سامنے دکھائی دینے والے دو سچ یہ تھے کہ اپوزیشن ارکان اسمبلی کے ساتھ ساتھ عمران خان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی ان کی حکومت کے طریقہ کار اور ناکامیوں سے تنگ آ چکے تھے اور یہ کہ امریکہ میں پاکستانی سفارتخانہ سے بھیجے گئے سائفر میں امریکہ کی کسی سازش کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکا کا ہاتھ ہے تاہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر کو لے کر پی ٹی آئی حکومت کے مؤقف کی تردید کی۔
اب ہم نے صرف کھیلنا ہے
اس دوران سائفر سے متعلق عمران خان اور ان کے سابق سیکرٹری اعظم خان کی ایک آڈیو لیک سامنے آئی تھی جس میں عمران خان کو کہتے سنا گیا تھا کہ ’اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، امریکا کا نام نہیں لینا، بس صرف یہ کھیلنا ہے کہ اس کے اوپر کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی جس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر کے اوپر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں‘۔
اس کے بعد وفاقی کابینہ نے اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کیا تھا۔
اعظم خان پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری تھے اور وہ وزیراعظم کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔
سائفر کے حوالے سے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا تھا سائفر پر ڈرامائی انداز میں بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی اور افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا تھا۔