ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

توشہ خانہ ریفرنس؛بانی پی ٹی آئی نے قیمتی جیولری تحائف کی قیمت بہت کم ظاہر کروائی، نیب کی ہوش رُباتحقیقاتی رپورٹ

NAB, Toshakhana Reference, City42, Graff Jewellery,
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: پاکستان کے دوست ملک کی جانب سے ملنے والے گراف جیولری کے قیمتی تحائف انتہائی کم قیمت ظاہر کر کے انہیں مٹی کے بھاؤ خریدنے کی  بانی پی ٹی آئی اور ان کی بیوی بشریٰ بی بی کی مبینہ بدعنوانی کے متعلق نیب کی تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے۔

 نیب کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دبئی سے تخمینہ لگوانے پر معلوم ہوا کہ پاکستان میں تحائف کی قیمت کم لگا کر خزانے کو 1 ارب 57 کروڑ، 37 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 3 ارب 16 کروڑ روپے مالیت کے تحفوں کی قیمت پاکستان میں ایک کروڑ 80 لاکھ ظاہر کی گئی، اس کم ظاہر کی گئی ویلیو کی نصف رقم یعنی 90 لاکھ روپےادا کرکے تحائف بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی نے رکھ لیے۔ 

 نیب کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قیمتی تحائف کی درست قیمت جانچنے کا نظام پاکستان میں موجود ہی نہیں ہے، پاکستان میں کوئی ادارہ سعودی شہزادے سے ملے ہوئے قیمتی جیولری سیٹ کی قیمت نہ جان سکا۔

 نیب کی رپورٹ کے مطابق ایف بی آر، کلیکٹوریٹ آف کسٹمز کی کمیٹی نے تحائف کی قیمت کا تعین کرنےسے معذوری ظاہر کردی تھی، تحائف کی قیمت کا تخمینہ لگانے کے سلسلے میں انڈسڑیز اینڈ پروڈکشن ڈویژن سے بھی رابطہ کیا گیا، انڈسڑیز اینڈ پروڈکشن ڈویژن نے بتایا کہ جیمز اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کمپنی ہی غیر فعال ہے جبکہ جیمز اینڈ جیولری ٹریڈرز ایسوسی ایشن بھی اس قیمتی جیولری کی قیمت کا اندازہ نہ لگا سکی۔

نیب کی  رپورٹ کے مطابق  پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے بھی ان غیر معمولی تحائف کی قیمت بتانے سے معذوری ظاہر کی، برطانیہ، عرب امارات، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ ایم ایل اے بھیجے گئے لیکن وہاں سے بھی کوئی جواب نہ ملا۔

 نیب رپورٹ  میں مزید بتایا گیا کہ دبئی میں پاکستانی قونصلیٹ جنرل کے ذریعے ایمبو ایمپیکس ایف زیڈ ای کے عمران بشیر کی خدمات لی گئیں، انہوں نے بتایا کہ تحائف کی اصل قیمت 3 ارب 16 کروڑ 55 لاکھ روپے بنتی ہے۔

قانون کے مطابق بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی 1 ارب 57 کروڑ 37 لاکھ روپے ادا کر کے ہی یہ قیمتی تحفہ رکھ سکتے تھے، لیکن انہوں نے 90 لاکھ روپے ادا کرکے تحائف رکھ لیے۔

 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سرکاری افسران کے خلاف رشوت  لینےیا مالی فوائد لے کر کم قیمت بتانے کے ثبوت نہیں ملے، مالی فوائد کے ثبوت نہ ہونے پر سرکاری افسران کو  توشہ خانہ ریفرنس میں ملزم نہیں بنایا گیا۔