سال دو ہزار بیس حکومتی ایوانوں میں اکھاڑ پچھاڑ کا سال

31 Dec, 2020 | 05:11 PM

Arslan Sheikh

( قذافی بٹ ) تبدیلی کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آنیوالی تحریک انصاف سرکار، یوں تو 2020 میں ملک میں کوئی بڑی تبدیلی نہ لاسکی، عوام کی زندگی تو تبدیل نہ ہوئی البتہ وزارتوں اور بیوروکریسی میں تبدیلی ضرور دیکھنے میں آئی۔

سال 2020 میں پی ٹی آئی حکومت نے جہاں وفاقی سطح پر تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ پنجاب کابینہ اور بیوروکریسی میں بھی  بڑے پیمانے پر اکھاڑپچھاڑ کی جاتی رہی۔ فیاض الحسن چوہان پر حکومت کی تشہیر کی بجائے ذاتی تشہیر پر ان سے ایک مرتبہ پھر وزارت اطلاعات کا قلمدان واپس لیا گیا اور قلمدان فردوس عاشق اعوان کو دیتے ہوئے کابینہ میں دو نئے وزراء کو شامل کرلیا گیا۔

پنجاب حکومت نے وزراء اور بیوروکریسی کی تبدیلیوں کی روایت 2020 میں بھی برقرار رکھی اور پنجاب سرکار میں تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ چیف سیکرٹری، آئی جی اور سی سی پی او سمیت اہم افسرا ن کا تبادلہ کیا جاتا رہا۔

نومبر 2019 میں تعینات ہونیوالے چیف سیکرٹری اعظم سلیمان کو محض پانچ ماہ بعد تبدیل کرکے جواد رفیق کو اپریل 2020 میں صوبائی بیوروکریسی کا چیف لگا دیا گیا۔ اداروں کو سیاسی اثرورسوخ سے پاک کرنے کی دعویدار حکومت پولیس میں ریفارمز تو نہ لاسکی، لیکن اس ادارے کے سربراہان آپس میں برسرپیکار نظر آئے۔

سی سی پی او ذوالفقار حمید کی جگہ عمر شیخ کو لگایا گیا، عمر شیخ کی جانب سے آئی جی شعیب دستگیر کیخلاف کئے گئے ٹویٹ پر معاملہ اس نہج پر پہنچا کہ انہیں ہٹا کر انعام غنی کو آئی جی پنجاب تعینات کردیا گیا۔

وزیر جیل خانہ جات زوارحسین وڑائچ اور کوآپریٹو کے وزیر مہر اسلم سے ناقص کارکردگی کے باعث وزارتیں واپس لی گئیں جبکہ سال کے آخر میں دو نئے وزراء، خیال کاسترو اور یاوربخاری کو کابینہ میں شامل کیا گیا۔

پنجاب کابینہ میں تبدیلیوں اور نئی تعیناتیوں کے باجود کابینہ کے اجلاس تواتر سے جاری رہے اور 2020 میں 17 مرتبہ پنجاب کابینہ کا اجلاس بلایا گیا۔

مزیدخبریں