نوکر شاہی کنفیوژن کا شکار مگر کیوں ؟

31 Dec, 2017 | 12:20 PM

(قیصر کھوکھر): پنجاب کی نوکر شاہی آج کل ایک عجیب کنفیوژن اور پریشانی کا شکار ہے اور جیسے جیسے عمران خان کی پنجاب اور مرکز میں شہرت بڑھتی جا رہی ہے مسلم لیگ نون نیچے کی جانب جارہی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک افسران پریشان ہیں کہ اگلا اقتدار کس کو ملتا ہے اور وہ کس کے ساتھ تعلق جوڑیں۔

اس وقت پنجاب اور وفاق کے اکثر افسران غیر جانبدار امیج رکھنے کی بجائے کسی نہ کسی سیاسی شخصیت کا لیبل ان پر لگا ہوا ہے۔ پنجاب میں افسران کا ایک ڈی ایم جی نون اور اتفاق سول سروس کے نام سے گروپ پیدا ہو چکا ہے، جن میں احد خان چیمہ، راشد محمود لنگڑیال پیش پیش ہیں، ان کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ مسلم لیگ نون کے وفادار زیادہ اور اپنے پیشہ کے ساتھ وفادار کم ہیں۔راشد محمود لنگڑیال اور احد خان چیمہ نے حکومت سے بے انتہا ذاتی فائدے بھی حاصل کر رکھے ہیں۔ ایک افسر صرف اور صرف اپنے کاز اور ریاست کے ساتھ وفادار ہونا چاہیے یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ وہ برسراقتدار حکمرانوں کے پیچھے لگ جائیں اور ریاست کی بجائے حکومت کے طرف دار ہوں۔ پنجاب میں بااثر اسامیوں پر بیٹھے افسران موجودہ حکمران جماعت کے پروگرام کو آگے بڑھا رہے ہیں کیونکہ اگر پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو یہ افسران یا تو ملزم ٹھہرائے جائینگے یا یہ موجودہ حکمرانوں کےخلاف سلطانی گواہ بن جائینگے۔

ماضی میں امین اللہ چودھری شریف خاندان کیخلاف وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں لیکن یہ بھی دیکھا جا چکا ہے کہ جنرل ضیاءکے سٹاف افسر میجر (ر) طارق شفیع چک کو پیپلز پارٹی کی حکومت نے گریڈ 22 میں ترقی دی تھی۔ اس میں جی ایم سکندر جیسے فرض شناس افسران بھی سول سروس میں موجود تھے، جنہوں نے مختلف حکومتوں کے ساتھ کام کیا، لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنی غیر جانبداری بھی برقرار رکھی جبکہ جی ایم سکندر نے میاں نواز شریف ، چودھری پرویز الہٰی، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے ساتھ کام کیا۔ ڈاکٹر توقیر حسین شاہ ایک آﺅٹ اسٹینڈنگ افسر ہیں۔ لیکن آج کل وہ شریف خاندان کی قربت کی وجہ سے زیر عتاب ہیں ۔وہ قوم کا اثاثہ ہیں، حکومت کو انہیں ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔

افسر شاہی کی پریشانی یہ ہے کہ کہیں پنجاب میں مخالف حکومت برسراقتدار نہ آ جائے، تو اس صورتحال میں ان کا کیا بنے گا؟ ۔ وفاق اور پنجاب میں کسی ایک جگہ مسلم لیگ کی حکومت قائم ہونے پر یہ اپنی پناہ ڈھونڈ لیں گے۔جس افسر نے میٹرو ٹرین یا میٹرو بس بنائی ہے اور اس پراجیکٹ میں جو بے قاعدگیاں ہوئی ہیں ان کا ذمہ دار کون ہوگا؟ کیا یہ بے قاعدگیاں حکمرانوں کے کہنے پر کی گئیں یا افسران نے اپنے طور پر کک بیک کی ہیں۔ صاف بات ہے کہ نئی آنے والی حکومت موجودہ حکومت کے تمام منصوبوں کا آڈٹ کرائے گی اور کس کس افسر نے موجودہ حکومت کو الیکشن کے لئے فنڈنگ کی۔ اس سارے عمل کا آخر احتساب تو ہوگا اور اس احتساب میں مخالف لابی کے افسران بھی زیر عتاب آئیں گے۔

نوکر شاہی حکومت بدلتے ہی اپنے تیور بھی تبدیل کر لیتی ہے اور گزشتہ حکومت کے تمام کمزور پہلوﺅں سے نئی حکومت کو آگاہ کر کے نئے سیٹ اپ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ایک سرکاری ملازم کو اپنی ذات سے بالاتر ہو کر کام کرنا چاہیے اور حکومتی پالیسیوں پر عمل کرنا چاہیے اور خاموشی سے سول سرونٹ کے رولز اینڈ ریگولیشن کو فالو کرنا چاہیے اور کسی بھی صورت میں حد سے بڑھ کر اپنی سیاسی جماعت یا حکمرانوں کے ساتھ وفاداری ہرگز نہیں دکھانی چاہیے تاکہ اگر مخالف حکومت آئے تو اس نظام کا بھی یہ حصہ بن سکیں۔ اور حکمرانوں کو یہ کہنے کی نوبت نہ آئے کہ یہ افسر میرا بھائی ہے اور یہ افسر میرا بیٹا ہے اور پھر مخالف حکومت آنے پر یہ بیٹا اور بھائی زیر عتاب آ جائیں۔ جیسا کہ احد خان چیمہ آج کل وزیر اعلیٰ پنجاب کے بھائی بنے ہوئے ہیں اور تھرمل منصوبوں کے ساتھ ساتھ اورنج ٹرین کا منصوبہ بھی چلا رہے ہیں، جہاں پر اربوں روپے کا بجٹ استعمال ہو رہا ہے۔

 پنجاب میں مخالف حکومت آنے پر سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں ملوث افسران کا بھی احتساب ہوگا۔ کشمیری افسران بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ ان کا اگلی حکومت میں کیا مستقبل ہوگا۔ لیکن کئی افسران میں یہ بھی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ حکومت بدلتے ہی اپنے تیور بدل کر نئی حکومت کے ساتھ اپنی وفاداری ظاہرکر دیتے ہیں اور ماضی کی حکومت کے تمام راز اگل کر دوبارہ نئے سیٹ اپ میں بھی اہم ترین اسامیوں پر تعینات اور برا جمان ہو جاتے ہیں۔

موجودہ حکومت کا یہ کلچر ہے کہ وہ صرف ان افسران کو اچھی تقرری دیتی ہے جن کو وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں یا جنہوں نے ایوان وزیر اعلیٰ میں ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ اگر کسی سیاسی جماعت کی زیادہ عرصہ کےلئے ایک ہی صوبے یا وفاق میں حکومت ہو تو افسران کا اس سیاسی جماعت کے ساتھ مل جانا ایک فطری عمل ہے، لیکن نوکر شاہی کو اپنا غیرجانبدار امیج ہر صورت برقرار رکھنا چاہیے اور کسی بھی صورت میں رولزاور ریگولیشنز سے ہٹ پر حکمرانوں یا ارکان اسمبلی کے کام نہیں کرنا چاہیے۔ تاکہ کوئی مخالف حکومت آنے پر انہیں وعدہ معاف گواہ بننے کی نوبت نہ آئے۔

مزیدخبریں