امانت گشکوری: سپریم کورٹ کے بعض ججوں کے درمیان پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو لے کر اختلافات مزید سنگین صورت اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں تاہم آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے زریعہ پارلیمنٹ کے ارکان کو اپنی پارٹیوں کی ڈکٹیشن کا پابند بنانے والی تشریح کے خلاف نظر ثانی اپیلوں کی سماعت کل منگل سے بہرحال شروع ہونے کا آج فیصلہ ہو گیا۔
سپریم کورٹ میں ڈرامائی منظر اس وقت سامنے آیا آیا جب جسٹس منیب اختر نے ایک اہم نظر ثانی کیس کی سماعت کو یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیا کہ وہ اس کارروائی میں شریک نہیں ہو سکتے کیونکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کی نئی کمیٹی نے یہ پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس منیب اختر نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظرثانی کیس میں رجسٹرار کو ایک اور خط لکھ دیا، جسٹس منیب اختر نے آج کی سماعت کے حکمنامے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس خط کو نظر ثانی کیس کی آج سماعت کے دوران چیف جسٹس نے جسٹس منیب اختر کی درخواست کے مطابق ان کے خط کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا اور قرار دیا کہ ایسے خطوط کو مقدمہ کے ریکارڈ کا حصہ بنانے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ البتہ چیف جسٹس نے اس خط پر مفصل گفتگو کی، ان کا اصرار تھا کہ جسٹس منیب اختر کو اس نظرثانی بنچ کا حصہ بننا چاہئے کیونکہ یہی قانون کا طریقہ کار ہے کہ جو بنچ فیصلہ کرتا ہے وہی نظر ثانی کی اپیل بھی سنتا ہے۔
جسٹس منیب اختر کا خط
جسٹس منیب اختر کا خط
جسٹس منیب اختر نے اپنے خط میں کہا کہ پانچ رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کرنا تھی،چار رکنی بنچ عدالت میں بیٹھ کر آرٹیکل 63 اے سے متعلق نظرثانی کیس نہیں سن سکتا،آج کی سماعت کا حکمنامہ مجھے بھیجا گیا،حکمنامے میں میرا نام لکھا ہوا ہے مگر آگے دستخط نہیں،بنچ میں بیٹھنے والے چار ججز قابل احترام ہیں مگر آج کی سماعت قانون اور رولز کے مطابق نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے خط میں لکھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے یہ بینچ تشکیل دیا ہے، کمیٹی کے تشکیل کردہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا، بینچ میں بیٹھنے سے انکار نہیں کر رہا، بینچ میں شامل نہ ہونے کا غلط مطلب نہ لیا جائے اور میرے خط کو نظر ثانی کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
جسٹس منیب اختر نے لکھا کہ اپنا موقف گزشتہ خط میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں،آج کی سماعت کے حکمنامے پر احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتا ہوں،آج کی سماعت کا حکمنامہ جوڈیشل آرڈر نہیں،آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظرثانی کیس کے حکمنامہ کی کوئی حیثیت نہیں۔
چیف جسٹس ْاضی فائز عیسیٰ کا نکتہ نظر
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 63 اے کا مقدمہ بڑا اہم ہے، یہ نظر ثانی کیس دو سال سے زیر التوا ہے۔ جسٹس منیب اختر رائے کا احترام ہے لیکن ایک بار بینچ بن چکا ہو تو کیس سننے سے معذرت صرف عدالت میں ہی ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قرار دیا کہ کہ جسٹس منیب اختر کو اس نظرثانی بنچ کا حصہ بننا چاہئے کیونکہ یہی قانون کا طریقہ کار ہے کہ جو بنچ فیصلہ کرتا ہے وہی نظر ثانی کی اپیل بھی سنتا ہے۔
آج کی سماعت
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج پیر کے روز آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت کے لیے پانچ رکنی بنچ کو سماعت کرنا تھی۔ صبح بینچ کے سربراہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ تین دیگر جج جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مظرعالم کمرہ عدالت پہنچ گئے تاہم بینچ کے پانچویں رکن جسٹس منیب اختر کمرہ عدالت میں نہیں آئے۔ جسٹس منیب اختر نے بنچ میں شریک نہ ہونے کے متعلق رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط تحریر کر دیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کا خط پڑھ کر سنایا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس کے حوالے سے لارجر بینچ آج بنا تھا، کیس کا فیصلہ ماضی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا، قانون کا تقاضا ہے نظرثانی اپیل پر سماعت وہی بینچ کرے۔ سابق چیف جسٹس کی جگہ میں نے پوری کی، جسٹس اعجاز الاحسن کی جگہ جسٹس امین الدین کو شامل کیاگیا جب کہ ہم جاکر جسٹس اختر منیب سے درخواست کریں گےکہ وہ بینچ میں بیٹھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس منیب نے لکھا ہے کہ میں آج اس کیس میں شامل نہیں ہوسکتا، انہوں نے لکھا ہے کہ ان کا خط اس نظر ثانی کیس میں ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے، اس خط کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جا رہا کیونکہ ایسے کسی خط کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی کوئی روایت نہیں۔ ہم ابھی اٹھ رہے ہیں، جسٹس منیب اختر کو درخواست کررہے ہیں کہ وہ بنچ میں شامل ہوں، جسٹس منیب اختر نے آج مقدمات کی سماعت کی ہے وہ ٹی روم میں بھی موجود تھے۔
چیف جسٹسنے مزید کہا کہ جسٹس منیب اختر کا آج کی سماعت میں شامل نہ ہونا ان کی مرضی تھا، ہم کل دوبارہ اس نظرثانی کیس کی سماعت کریں گے، امید کرتے ہیں کہ جسٹس منیب اختر کل سماعت میں شامل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جسٹس منیب کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ بینچ کی تشکیلِ نو ہو گی، امید ہے جسٹس منیب اختر دوبارہ بینچ میں شامل ہو جائیں گے، جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں، دونوں صورتوں میں کل کیس کی سماعت ہوگی۔
آرٹیکل 63 اے کی تیشریح کے فیصلہ پر نظر ثانی کا کیس
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63-A کی تشریح سے متعلق عرصہ دراز سے زیر التوا جن نظرثانی درخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی کر دی ہے ان کے فیصلے پر اس اہم آرٹیکل کی آئندہ تشریح کا دارومدار ہے۔اس فیصلہ سے طے ہو گا کہ پارلیمنٹ کے رکن پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران کسی معاملہ پر آزادانہ رائے دے سکتے ہیں یا کہ انہیں ان کی پارٹیاں ڈکٹیٹ کریں گی کہ پارلیمنٹ کے اندر کس موضوع پر کیا رائے دینا ہے۔
سپریم کورٹ نے پہلے آرٹیکل 63-A کی تشریح پر نظرثانی اپیلوں کی سماعت 23 ستمبر کو مقرر کی تھی۔
عدالت کے 17 مئی 2022 کو آرٹیکل 63-A کے حوالے سے صدارتی ریفرنس پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنچ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف پارلیمنٹ کے منحرف رکن کی طرف سے ڈالے گئے ووٹ کو شمار نہیں کیا جائے گا، اور نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمنٹ کرے گی۔
اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کے تین ججوں کی اکثریت سے سنائے گئے اس فیصلے سے جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جمال خان مندوخیل نے اختلاف کیا تھا۔ جسٹس منیب اختر کی تحریر کردہ اکثریتی رائے کو کئی نظرثانی درخواستوں کے ذریعے چیلنج کیا گیا جو اب تک زیر التوا ہیں۔
اس کے بعد، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے بھی اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی، جس میں اہم نکات اٹھائے گئے تھے۔