زاہد چودھری : پنجاب حکومت نے گنگا رام ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ پروفیسر حافظ معین کو عہدہ سے ہٹا دیا۔ پی ایم او ڈاکٹر عارف افتخار کو ایم ایس گنگا رام کا اضافی چارج دیدیا گیا۔
ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹیفیکیشن میں پروفیسر حافظ معین کو گنگا رام ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈٹ کی پوسٹ سے فی الفور ہٹا کر سپیشلائزڈ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔
دوسری جانب مبینہ بے قاعدگیوں کے الزام میں گنگا رام ہسپتال کے 4 سابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹس سمیت 9 ملازمین کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت انکوائری کا حکم دے دیا گیا۔
سابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹس ڈاکٹر احتشام ، ڈاکٹر اطہر ، ڈاکٹر ظفر اور ڈاکٹر عامر سلیم، سابق ڈائریکٹر فنانس محمد عارف ،ڈپٹی ڈائریکٹر سیموئل امانت کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت انکوائری کا حکم دیدیا گیا، اسکے علاوہ آڈٹ افسر اسرار الحق ، بجٹ آفیسر اشفاق ، جونیئر کلرک ارسلان کے خلاف بھی پیڈا ایکٹ کے تحت انکوائری کا حکم دیا گیا ہے ۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز نے سیکریٹری زراعت افتخار علی سہو کو انکوائری افسر مقرر کر دیا ۔
فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس اور ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج
اگست کے تیسرے ہفتے گنگا رام ہسپتال میں ایک مریضہ کے ساتھ موجود کمسن بچی کے ہسپتال ملازم کے ہاتھوں ریپ کے واقعہ کے بعد ہسپتال کی لیڈی ڈاکٹروں اور فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس نے اس واقعہ پر احتجاج کیا اور ہسپتال کے ایم ایس کی بھی برطرفی کا مطالبہ کیا تھا۔
سٹوڈنٹس اور ہاؤس جاب کرنے والی ینگ ڈاکٹرز نے ہسپتال سے باہر سڑک پر آ کر بھی احتجاج کیا اور پولیس کو اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کرنا پڑی، تب سٹوڈنٹس نے احتجاج کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ میڈیکل کالج اور گھنگا رام ہسپتال میں ہراسمنٹ معمول کی بات بن چکی ہے۔
ہسپتال کی انتظامیہ ہراسمنٹ میں ملوث ملازموں کی خود سرپرستی کرت ہے اور شکایت سامنے لانے والی سٹوڈنٹس کو مزید ہراساں کیا جاتا ہے۔ تب سٹوڈنٹس نے وزیراعلیٰ مریم نواز شریف سے خاص طور سے درخواست کی تھی کہ وہ سہپتال میں سٹوڈنٹس اور تمام خواتین کے تحفظ کے لئے خود مداخلت کریں اور سٹوڈنٹس ہاسٹل کی سکیورٹی کیلئے فی میل سٹاف مہیا کرنے کے ساتھ سکیورٹی کیمروں کا بھی انتظام کروائیں۔
دو دن تک جاری رہنے والے احتجاج کے دوران سٹوڈنٹس اور ڈاکٹر بار بار ایم ایس کو ہٹانے کا مطالبہ کرتی رہیں اور "گو ایم ایس گو" کے نعرے لگتے رہے۔