ملک اشرف : لاہور ہائیکورٹ نے وزیر اطلاعات عظمی بخاری سے منسوب جعلی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرنےوالے ملزمان کے خلاف کارروائی کے لئے دائر درخواست پر ڈی جی ایف آئی اے کو تفتیش مکمل کروانے کے لئے 11 اکتوبر تک کی مہلت دے دی .
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے صوبائی وزیر عظمی بخاری کی درخواست پر سماعت کی ،ڈی جی ایف آئی اے احمد اسحاق ,ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ودیگر افسران پیش ہوئے ، چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ڈی جی ایف آئی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ نے دیکھا ہے کہ اس کیس کو اپنے تفتیشی کی رپورٹ کو بھی دیکھا ہے ، ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا ان کا کنڈیکٹ درست نہیں تھا دو اسٹنٹ ڈائریکٹر کو کلوز کرکے ان کے خلاف انکوائری شروع کردی ہے،ان کی مجرمانہ غفلت تھی ، اسٹنٹ ڈائریکٹرز اور تفتیشی افسر کے خلاف انکوائری مکمل کرکے ان کو مثال بنائیں گے، جو گریڈ سترہ سے اوپر کے ہوتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کا اختیار وزارت داخلہ کے پاس ہے۔
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ڈی جی ایف آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا گزشتہ سماعتوں سے عدالت نے محسوس کیا ہے کہ ایف آئی اے کے پاس تمام جگہوں پر جانے کا اختیار نہیں ڈی جی ایف آئی اے احمد اسحاق نے جواب دیا ایف آئی اے کے پاس افرادی قوت نہیں اس کو کارروائی کے لئے مقامی پولیس کی مدد چائیے ہوتی ہے، چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا گیا اسلام آباد میں بھی آپ پولیس کی مدد لی تھی،آپ نے پھر وہاں ریڈ کیوں نہیں کیا ، ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا جی مدد لی تھی ، پارلیمنٹ کی وجہ سے شائد تھے اس لئے نہیں کی گئی ،متعلقہ افسر نے شائد ریڈ کرنا مناسب نہ سمجھا ہو ، کیوں کہ وہاں پارلیمنٹرین موجود تھے ،چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کس قانون کے تحت روزنامچہ نہیں لکھتے، ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا ہمارے ڈیپارٹمنٹ پرفیکٹ نہیں ہے،چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کیا مطلب آپ کا ڈیپارٹمنٹ پرفیکٹ نہیں ، آپ لوگوں کے حقوق کے کسٹوڈین ہیں ،ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا ہمارے سائبر کرائم یونٹ میں افسران و ملازمین کنٹریکٹ پر ہیں ،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مس عالیہ نیلم نے ریمارکس دئیے کب تک لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی رہیں گی، چیف جسٹس نے روسٹرم پر موجود وفاق کے ایک لاء افسر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا لاء افسر صاحب تو کچھ پڑھ کر پھوکیں مار رہے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ، پھونکیں ماررہے ہیں لیکن یہاں صرف قانون کی بات ہوگی ، یہاں پھونکوں کا کوئی اثر نہیں ہونا ، چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اس کیس کی کیا پراگرس ہے ، اس کیس کی ایف آئی اے دروازے تک پہنچ کر ناکام واپس آ گئی ہے، ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا جے آئی ٹی کا لیول بھی بڑھا رہے ہیں ، کسی سنئیر افسر کو اس میں شامل کریں گے استدعا ہے کہ دو تین ہفتے دے دیں ، چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کو معلوم ہے ، دو تین ہفتوں میں کتنے دن اور کتنے گھنٹے ہوتے ہیں ،آپ لکھ کر لائے ہیں ، کہ آپ کو مہلت چائیے ،ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا میں بیرون ملک سفر بارے ٹریول ہسٹری کی رپورٹ لے کر آیا ہوں ، استدعا ہے کہ کچھ مہلت دے دیں ، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کام کرنے بیٹھیں تو چار روز کا کام ہے تفتیش کے لیے، نہ چاہیں تو چار ماہ بھی کم ہیں ،وفاقی حکومت کے لاء افسر نے تفتیش کی پیش رفت کے حوالے سے رپورٹ پڑھ کر سنائی ،عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کی استدعا پر کیس کی سماعت 11اکتوبر تک ملتوی کردی ،دوران سماعت صوبائی وزیر عظمی بخاری اور وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کے لاء افسران بھی موجود تھے۔