حکومت پنجاب کی اوپن ڈورپالیسی ہوا میں ؟

30 Sep, 2018 | 10:41 AM

قیصر کھوکھر

(قیصر کھوکھر) بیوروکریسی عوام کی نوکر ہے یا حاکم یہ فیصلہ کب ہوگا اور کیسے ہوگااور کون کرے گا۔ بیوروکریسی تو سرے سے عوام کو ملتی ہی نہیں ہے اور اپنے آپ کو سپر انسان سمجھتی ہے اور ان کی گردنوں میں ایک سریا پایا جاتا ہے یہ سریا کون توڑے گا کیا کوئی ایسا حکمران آئے گا کہ وہ اس بیورو کریسی کا گردن میں بنا سریا توڑے اور انہیں یہ باور کرائے کہ وہ عوام کے نوکر ہیں نہ کہ عوام کے حکمران۔ کراچی میں نو گوایریا سنے اور اخبارات میں پڑھے تھے لیکن پنجاب کے سرکاری دفاتر بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ کالے بابو کب عوام کی نفسیات کو سمجھیں گے۔ کب عوام کے سامنے جوابدہ ہونگے اور کب عوام کو ہر وقت میسر ہونگے۔

سول سروس میں اصلاحات میں اوپن ڈور پالیسی کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔ حال ہی میں حکومت پنجاب نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے کہ تمام محکموں کے افسران اور سیکرٹری، ڈی سی اور کمشنرز اور تمام رینک کے پولیس افسران صبح دس بجے سے دن 12بجے تک اپنے اپنے دفاتر کے دروازے کھول کر رکھیں اور اس دوران عوام کو ملیں اور ان کے مسائل حل کریںاور اس دوران کوئی اجلاس نہ رکھیں اور نہ ہی فیلڈکا کوئی دورہ رکھیں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے اور سرکاری دفاتر جو عوام کے لئے نو گو ایریا زبن چکے ہیں ان تک عوام کو رسائی مل سکے۔ عوام اور بیوروکریسی کے درمیان فاصلے کم ہو سکیں۔ لیکن پنجاب کی بیورو کریسی وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کے اس حکم کو ماننے سے انکاری ہے۔ پنجاب کے سیکرٹری پنجاب سول سیکرٹریٹ میں اس دوران یا تو اجلاس میں گئے ہوتے ہیں یا اس دوران دفاتر کے باہر دو یا تین دربان بٹھا رکھے ہوتے ہیں جو کسی کو بھی افسرکے کمرے میں جانے سے زبردستی روکتے ہیں اور تو اور سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان نے گزشتہ روز سول سیکرٹریٹ میں اس وقت کے دوران ہی اجلاس منعقد کیا اور تمام ڈی سی اور سیکرٹری اس اجلاس میں شریک تھے اور سائلین بے چارے در بدر ٹھوکریں کھاتے رہے ہیں۔

 یہ اب ڈیوٹی وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری اور سینئر صوبائی وزیر کی ہے کہ وہ خود بھی اس نوٹیفکیشن پر عمل کریں اور ماتحت بیوروکریسی کو بھی اس بات کا پابند بنائیں ۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ میں شناختی کارڈ دکھائے بغیر داخلہ بھی ممنوع ہے ،یہ داخلہ بھی اوپن کیا جانا چا ہیے۔ جتنا مرضی لکھا اور بولا جائے لیکن بیوروکریسی کسی کی سنتی ہے نہ کسی حکم کو بالا طاق رکھتی ہے اور ہر وہ کام کرتی ہے جو اس کا اپنا دل چاہتا ہے ۔ حقائق کچھ یوں ہیں کہ پنجاب کی نوکر شاہی نے وزیر اعلیٰ کی اوپن ڈور پالیسی ہوا میں اُڑا دی ہے اور اپنے دفاتر کے دروازے عوام اور سائلین کے لئے بند کر دیئے ہیں۔ افسروں کی غیرموجودگی میںاے سی چلتے رہتے ہیں ۔ بیوروکریسی کوہدایات جاری کی گئیں کہ وہ صوبے کے دور دراز علاقوں سے آئے سائلین کو ریلیف دیں۔ لیکن نوکر شاہی کسی کے بھی کنٹرول میں نظر نہیں آتی اور بے چارے سائلین کو یا تو سول سیکرٹریٹ میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جاتا اور اگر وہ کسی طرح پنجاب سول سیکرٹریٹ میں داخل ہو جاتے ہیں تو انہیں کسی سیکرٹری سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہر محکمہ کے سیکرٹری نے اپنے دفتر اور کمرے کے باہر دربانوں کی ایک فوج بٹھا رکھی ہے جس کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ کسی سائل کو دفتر میں داخل نہ ہونے دے۔

 یہ دربان نہ صرف سائلین کو نوکر شاہی سے ملنے سے روکتے ہیں بلکہ سائلین کے ساتھ بد تمیزی بھی کرتے ہیں۔ یہ بے چارے سائلین ایک دفتر سے دوسرے دفتر چکر لگانے اور بالآخر جونیئر سٹاف کے ہاتھوں بلیک میل ہونے اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنے کام کرانے پر مجبور ہوتے ہیں۔اگر آئی جی آفس جانے کا اتفاق ہو تو یہ ایک قلعہ نما عمارت میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں پر سکیورٹی کے نام پر سائلین کو پریشان کیا جاتا ہے۔ تھانوں، اضلاع کے ڈی پی او اور ڈی سی آفس کی طرح آئی جی آفس اور پنجاب سول سیکرٹریٹ بھی عوام کےلئے نو گو ایریا میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ لاہور شہر کے ڈی سی آفس اور ڈی آئی جی آپریشنز کے دفاتر مکمل طور پر نو گو ایریاز ہیں۔ اس ساری صورتحال میں آخر عوام کہاں جائیں۔ اضلاع میں افسران عوام کو ملتے ہی نہیں، وہ صرف ایم این اے اور ایم پی اے کو ہی ملنا گوارا کرتے ہیں۔

 اگر یہ نوکر شاہی عوام اور سائلین کو براہ راست ملنا شروع کر دے تو بہت سارے مسائل از خود حل ہو جائیں گے اور عوام کی اخلاقی فتح بھی ہوگی کہ بیوروکریسی ان کیلئے ہے ان میں سے ہی ہے لیکن پنجاب سول سیکرٹریٹ کی صورت حال یہ ہے کہ افسران سارا دن ایوان وزیر اعلیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایوان وزیر اعلیٰ کے چکر لگانے میں مصروف رہتے ہیں اور دفاتر میں بیٹھے سارا دن ایوان وزیر اعلیٰ کے دیے گئے کاموں اور اجلاسوں کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں اور پھر سارا دن ایوان وزیر اعلیٰ اجلاس میں شرکت کے لیے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح بے چارے عوام دفاتر کے چکر لگانے اور رسوا ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ چیف سیکرٹری پنجاب اکبر حسین درانی کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی دس بجے سے دن 12بجے تک اپنے دفاتر کے دروازے عوام کے لئے کھلے رکھیں اور ماتحت بیوروکریسی اور سیکرٹریوں کو بھی اس بات کا پابند کریں کہ وہ عوام کے لئے میسرہوں اور اپنے آپ کو عوام کا نوکر سمجھیں ۔ تمام سیکرٹریوں ، کمشنرز، ڈی سی ، آر پی او اور ڈی پی او، اے سی اور ڈی ایس پی کو اوپن ڈور پالیسی کا پابند بنایا جائے ۔

 اوپن ڈور پالیسی سے عوام کو قدرتی طور پر ایک ریلیف ملتا ہے اور جب ایک افسر دفتر میں موجود ہوگا تو سائل کا آدھا کام یہیں پر ہو جائے گا، لیکن اگر سینئر افسران ہی دفاتر سے اجلاسوں کے بہانے غائب ہونگے تو جونیئر سٹاف کا اللہ ہی حافظ ہے۔ بیوروکریسی جب تک اپنے آپ کو عوام کی نوکر اور خادم نہیں سمجھے گی ملک ترقی نہیں کرے گا انگریز کا بنایا ہوا کالے بابو کا نظام بدلنا ہوگا۔ بیوروکریسی کو یہ باور کرانا از حد ضروری ہے کہ وہ عوام میں سے ہیں اور عوام کے لئے ہیں اور یہ کہ وہ اپنے آپ کو فرعون نہ سمجھیں اور عوام کے نوکر بن کر عوام کی خدمت کریں ۔ حکومت کو سرکاری دفاتر کے باہر قومی لباس میں کھڑے چپڑاسی کو ہٹانا ہوگا یہ قومی لباس کی توہین ہے کیونکہ اس دفتر کے اندر انگریز لباس میں افسر بیٹھا ہوتا ہے اب نیا پاکستان بن چکا ہے اور نئے پاکستان کے مطابق نئی بیوروکریسی کی سوچ اورنیا ویژن بھی ضروری ہے۔

مزیدخبریں