سٹی42: حماس کے سینئر رہنما سامی ابو زہر نے اسرائیل سے 7 اکتوبر 2023 سے حماس کی قید میں موجود 97 یرغمالیوں اور ان کی لاشوں کی واپسی کیلئے جنگ بندی اسرائیل کے غزہ سے مکمل انخلا کی شرط دہرا دی.
ایک انٹرنیشنل خبر رساں ادارے کے مطابق حماس کے رہنما سامی ابو زہر نے اتوار کے روز دوحہ میں شروع ہونے والے یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے مذاکرات کے بعد پہلی مرتبہ پبلک بیان دیا تو حماس کی پرانی پوزیشن کو ہی دہرایا اور کہا ہم کہ جنگ بندی پر بات چیت کے لیے تیار ہیں مگر معاہدہ اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے مشروط ہوگا۔
اسرائیلی حکام پہلے بتا چکے ہیں کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل کے کئی علاقوں سے اغوا کر کے غزہ لے جائے گئے 253 کے لگ بھگ یرغمالیوں میں سے اس وقت 97 افراد حماس کی قید میں ہیں۔ ان میں سے 34 کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ مر چکے ہیں، اسرائیل ان افراد کی لاشیں ور باقی ماندہ زندہ یرغمالیوں کی واپسی کیلئے امریکہ کی دو ماہ کی جنگ بندی اور مصر کی دو دن کی جنگ بندی کے عوض کچھ یا بیشتر قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے۔ حماس کے پاس سات اکتوبر حملوں سے پہلے اغوا کر کے قید رکھے گئے چار دوسرے اسرائیلی شہری بھی موجود ہیں۔ دو ماہ جنگ بندی کی تجویز امریکی مصالحت کاروں کی طرف سے سامنے آئی تھی۔
دوسری جانب غزہ میں منگل کے روز سے اسرائیل کی حماس کے خلاف فوجی کارروائیوں میں نئی شدت نوٹ کی گئی ہے۔ حماس کے ساتھ وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں 143افراد مارے گئے جن میں سے مبینہ طور پر 119 افراد بیت لاہیہ میں 2 رہائشی عمارتوں پر بمباری سے مارے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ دونوں عمارتیں بمباری سے مکمل تباہ ہو گئیں اور ان عمارتوں میں پناہ لینےوالے 119 فلسطینی شہید ہوگئے۔
اسی دوران کل منگل کے روز غزہ میں ایک عمارت میں جانے والے چار اسرائیلی فوجی بم کے دھماکے میں مارے گئے جن کے متعلق القسام بریگیڈ نے کہا ہے کہ وہ ان کے حملے میں مارے گئے۔
حماس کی مکمل جنگ بندی کے عوض تمام یرغمالیوں کی رہائی کے امکانات کے متعلق اسرائیل میْں مبصرین کا کہنا ہے کہ امکان موجود ہے لیکن غزہ سے اسرائیلی فوج کے نکل جانے کے متعلق اسرائیل کی موجودہ جنگ کی ہنگامی حکومت کے ارکان اور ان کے ساتھ عمومی رائے عامہ متفق ہیں کہ غزہ کو دوبار حماس کے حوالے کر دینا بعید از امکان ہے۔ اسرائیل نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ فلسطین کی اتھارٹی کے ساتھ بھی اس موضوع پر بات چیت کی ہے کہ غزہ میں حماس کی واپسی کا موہوم امکان بھی ختم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیْں اور غزہ کی تعمیر نو اور بحالی کا کام کون کرے گا، اس کے بعد یہاں کیا نظام ہو گا جس میں حماس نہ ہو۔ اس حوالے سے کئی یورپی ممالک اور امریکہ کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی بھی متفق بتائے جاتے ہیں، اس تناظر میں ہی اتوار کے دوحہ مذاکرات کے بعد سے اسرائیل میں کہا جا رہا ہے کہ غزہ سے اسرائیل کی واپسی اور مکمل جنگ بندی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔