(سٹی 42) گردے کی پتھری کیسے بنتی ہے اور اس سے نجات کیسے ممکن ہے؟ ماہر امراض یورولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد نذیر نے بتادیا۔
گردوں میں پتھری کا بن جانا ایک تکلیف دہ مرض ہے جس کا علاج بھی کافی پیچیدہ ہوتا ہے، پتھری کے ایک بار خاتمے کے بعد اس کے دوبارہ بننے کے خطرات پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ اسی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مارننگ شو "مارننگ وِد فضا" میں یورولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد نذیر کا کہنا تھا کہ گردوں میں پتھری کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں پانی کم پینا، خاندانی ہسٹری کا ہونا، کیلشیئم کا زیادہ استمعال، موٹاپا، ذیابطیس اور مخصوص غذاؤں خصوصاً میٹھی غذاؤں کا زیادہ استعمال شامل ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ غذا میں 25 فیصد سے زائد حصہ میٹھی چیزیں کھانے اور پینے والے افراد کے گردوں میں پتھری پیدا ہونے کے امکانات 88 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔خصوصی طور پر ایسی غذاؤں اور مشروب کا استعمال گردوں میں پتھری بنانے کے امکانات کو بڑھاتاہے جن میں چینی شامل ہے۔ چینی اور مٹھاس بلڈ پریشر اور شوگر بڑھانے سمیت وزن بڑھانے کا بھی سبب بنتی ہے اسی لیے ممکنہ طور پر یہ سب چیزیں مل کر گردوں میں پتھری بنانے کے عمل کو تیز اور آسان بنا دیتی ہیں جبکہ زیادہ مٹھاس کا استعمال پیشاب میں کیلشیم کی مقدار کو بڑھا دیتا ہے جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر گردوں میں پتھری بن سکتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد نذیر کا مزید کہنا تھا کہ گردوں کی پتھری پیشاب کی نالی کے کسی بھی حصے کو متاثر کرسکتی ہے اور اگر وہاں پر پھنس جائے تو نکلنا ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔ عام طور پر اس سے کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔ درد کش ادویات اور بہت زیادہ پانی پینا معمولی پتھری کو نکالنے کے لیے کافی ثابت ہوتا ہے تاہم اگر وہ پیشاب کی نالی میں پھنس جائے یا پیچیدگیوں کا باعث بنے تو پھر سرجری کروانا پڑتی ہے۔اگر آپ گردوں کی پتھری سے بچنا چاہتے ہیں تو ہر روز پورے دن میں 6 سے 8 گلاس پانی کا استعمال کریں جو 1.5 لیٹر سے 2 لیٹر یومیہ بنتا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ جو افراد گردے کی پتھری میں مبتلا ہیں انہیں اس سے زیادہ پانی استعمال کرنا چاہیے جو 3 لیٹر روزانہ یا اس سے کچھ زیادہ ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ گردے کی پتھری عام طور پر کیلشیم، فاسفیٹ یا آگزالیٹ سے بنی ہوتی ہے اور بالعموم غذا کے ذریعے خون میں شامل ہونے والے یہ مادّے پانی میں بخوبی حل ہوجاتے ہیں اس لیے پانی کا زیادہ استعمال انہیں پتھری کی شکل میں جمع ہونے سے باز رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں، پانی کی اضافی مقدار نہ صرف پتھری کے سائز کو قابو میں رکھتی ہے بلکہ ممکنہ طور پر اس کی جسامت بھی کم کرسکتی ہے۔