ویب ڈیسک : کوئٹہ کا شہری علی آغا اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ یورپ کے سفر پر روانہ ہوا لیکن اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی بدقسمت خاندان کی زندگی کا سفر ختم ہو گیا۔
ترک حکام کے مطابق علی آغا اور ان کے خاندان سمیت اس کشتی پر درجنوں افراد سوار تھے۔کشتی ترکیہ کے صوبے چناق قلعہ میں سمندری طوفان کے باعث الٹ گئی۔ کشتی پرسوار افراد کی درست تعداد معلوم نہیں ہوسکی، 13روز کی تلاش کے بعد اب تک 23 افراد کی لاشیں سمندر سے نکالی جا چکی ہیں۔
کوئٹہ کے شہری علی آغا کے ساتھ ان کی اہلیہ 40 سالہ بی بی طاہرہ، چار بچے 14 سالہ سبحان، 12 سالہ سجاد، 10سالہ فاطمہ اور پانچ سالہ کوثر بھی شامل تھے۔ رشتہ داروں نے اپنے پیاروں کو استنبول میں سپرد خاک کردیا۔ علی آغا کے برادر نسبتی عادل شاہ کا کہنا ہے کہ ان کے پیاروں کو اپنے وطن کی مٹی بھی نصیب نہیں ہو سکی اور انہیں وہیں ترکیہ کے شہر استنبول میں سپردِخاک کر دیا گیا۔
عادل شاہ نے نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سید علی آغا کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ کے رہائشی تھے جن سے ان کی بہن کا رشتہ تقریباً 15 سال قبل ہوا۔ شادی کے بعد میاں بیوی کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کی ٹارگٹ کلنگ، بے امنی اور مالی مشکلات کے باعث پاکستان چھوڑ کر ہمسایہ ملک ایران منتقل ہو گئے۔ وہاں سے تین چار سال قبل روزگار کی تلاش میں ترکیہ چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے بیوی بچوں کو بہتر اور خوشحال مستقبل دینا علی آغا کا خواب تھا لیکن ترکیہ میں ان کی زندگی آسان نہیں تھی۔ وہ وہاں تعمیراتی شعبے میں یومیہ اجرت پر کام کرتے تھے۔ کرایے کے مکان میں رہائش پذیر تھے اور بمشکل اپنا خرچ پورا کررہے تھے۔ ترکیہ میں مستقبل کے لیے بہتر مواقع نہ ہونے کے باعث ان کی نظریں یورپ پر جمی ہوئی تھیں۔ ان کے دو بھائی اور والدین پہلے ہی جرمنی میں تھے۔ وہ ان کے پاس جانا چاہتے تھے۔
عادل شاہ کا کہنا تھا کہ بہن اور بہنوئی نے یورپ جانے سے پہلے مجھ سے بات نہیں کی کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ میں خطرات کی وجہ سے ان کے فیصلے کی مخالفت کروں گا تو انہوں نے مشورہ کیے بغیر ترکیہ سے یونان جانے کا فیصلہ کیا۔بہن نے جانے سے پہلے والدہ کو وائس مسیج چھوڑا اور بتایا کہ وہ شوہر اور بچوں کے ساتھ سفر پر نکل رہی ہے، اگر فون بند ملے تو پریشان نہیں ہونا۔
عادل شاہ نے بتایا کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ان کا سفر کب اور کہاں سے شروع ہوا، ہمیں 20 مارچ کو ترکی سے کسی جاننے والے نے ٹیلی فون پر حادثے کی اطلاع دی اور بتایا کہ کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکا۔
عادل شاہ نے کہا کہ ہم نے ترکیہ میں پاکستانی سفارت خانے اور ترک حکام سے رابطہ کیا۔ میتوں کو کوئٹہ لانے کا طریقہ کار بہت مہنگا، پیچیدہ اور وقت طلب تھا۔ ایک میت کو کوئٹہ لانے کا خرچ کم از کم آٹھ ہزار ڈالر بتایا جا رہا تھا، اس لیے خاندان نے جاننے والوں کو انہیں وہیں دفنانے کی اجازت دے دی۔‘
ان کے مطابق حادثے کی وجہ سے پورا خاندان کرب میں مبتلا ہے۔ بوڑھے والدین صدمے میں ہیں۔