الیکشن 2018 لاہور کیا سوچ رہا ہے؟

30 Jun, 2018 | 11:13 AM

( فروا وحید) جس شعبے سے میں وابستہ ہوں،اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ سیاست سے لیکر سماج، معیشت تک گفتگو اور بحث و مباحثہ کرنا عام سی بات ہے، اینکر سے لیکر دفتر کے کچن میں کام کرنے والے تک ہر فرد سیاسی تجزیہ کار ہوتا ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شعبے سے منسلک ہر فرد کا تجزیہ یا تبصرہ دوسرے سے مختلف و منفرد ہوتا ہے۔

دو روز پہلے میری کچھ خواتین دوستوں کی محفل جمی تھی،یہ وہ خواتین تھی جن کا میڈیا کے مختلف شعبوں سے تعلق ہے ،ان میں سے زیادہ تر خواتین وہ تھیں جو فیلڈ میں کام کرتی ہیں،عرف عام میں انہیں رپورٹر کہا جاتا ہے۔ آغازمیک اپ سے شروع ہوئی جو سیاست تک پہنچ گئی۔ شرکاءکی متفقہ رائے یہ تھی کہ جس طرح صورتحال ترتیب دی جارہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ اس مرتبہ عمران خان کو وزیر اعظم بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ ایک خاتون نے کہا کہ جو سیاسی پارٹی لاہور میں فتح حاصل کرے گی، وہی پنجاب کی فاتح ہو گی،اب سوال یہ ہے کہ لاہور کیا سوچ رہا ہے؟ میری دوستوں کی متفقہ رائے یہ تھی کہ اس مرتبہ بھی مسلم لیگ ن لاہور کی قومی اسمبلی کی چودہ سیٹوں میں سے تقریباَ 13 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرے گی۔

 وہ خواتین جو مسلم لیگ ن کی شدید ناقد تھیں،ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے، رپورٹرز کے مطابق لاہور کے عوام کی اکثریت اب بھی نوازشریف کے ساتھ ہے۔2017ءمیں ہونے والی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیاں سب کے سامنے ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں لاہور کا ایک حلقہ بڑھا ہے۔ اس شہر بے مثال میں قومی اسمبلی کے 14 حلقے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ان چودہ حلقوں میں تبدیلیاں بھی کی گئی ہےں۔ قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 118 اب این اے 123 بن چکا ہے،جو شاہدرہ سے شروع ہوتا ہے اور شمس پورہ پر آکر ختم ہوتا ہے۔

اس میں گجر محلہ، عباس نگر، بیگم کوٹ، سگیاں وغیرہ جیسے علاقے شامل ہیں۔ یہاں پر زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شہری آباد ہیں۔ این اے 119 نئی حلقہ بندیوں کے بعد این اے 124 ہوگیا ہے۔ اس حلقے میں فوڈ سٹریٹ, مصری شاہ, رنگ محل, اندرون لوہاری گیٹ اور دیگر علاقے آتے ہیں۔یہ حلقہ مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے۔ خواتین رپورٹرز کے مطابق یہاں کسی سے بھی یہ سوال کریں کہ وہ کس کو ووٹ دے رہے ہیں،تو اکثریت کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ پکے لاہوری ہیں اور ان کا ووٹ تو صرف اور صرف مسلم لیگ ن کے لئے ہی ہے۔ وہ کسی اور کو ووٹ دینے کے بارے میں سوچتے تک نہیں۔این اے 120 اب این اے 125 ہوگیا ہے۔

 دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہاں سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کامیاب ہوئے تھے۔ یاسمین راشد جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، گزشتہ الیکشن میں وہ نواز شریف کے مقابلے پر آئی تھیں اور اچھے خاصے ووٹ بھی حاصل کئے تھے۔ اس حلقے کے ووٹرز کے مطابق وہ نوازشریف کے ساتھ ہیں کیونکہ ہمارے بزرگ بھی برسوں سے مسلم لیگ ن کو ووٹ دیتے آئے ہیں اور وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ این اے 126 جو پہلے این اے 121 تھا۔ اس حلقے میں بابو صابو، یتیم خانہ، سمن آباد جیسے علاقے آتے ہیں۔ اس حلقے میں عوام کی رائے تقسیم ہے،مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ یہاں جماعت اسلامی کے بھی اچھے خاصے سپورٹر ہیں۔ این اے 127 کا ذکر کر لیتے ہیں جو پہلے این اے 123 تھا۔ اس حلقے میں باغبانپورہ،نشاط پارک، یو ای ٹی اور دیگر علاقے شامل ہیں۔

 2008ءمیں یہاں ن لیگ کے مخدوم جاوید ہاشمی جیتے تھے۔ 2013 ءبھی ن لیگ کے محمد پرویز ملک کامیاب ہوئے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 124 کا نام بدل کر اسے این اے 128 کردیا گیا ہے جس میں بھسین، لکھوڈیر، داروغہ والا، فتح گڑھ، سراج پورہ اور دیگر شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن کے شیخ روحیل اصغر نے انتخابات 2008ءاور 2013ءمیں کامیابی حاصل کی اور قومی اسمبلی کے رکن بنے۔این اے 125 اب این اے 129 بن چکا ہے جس میں میو گارڈن، جم خانہ، مغل پورہ، ڈرائی پورٹ، شامی روڈ، لال پل، تاج باغ، سردار کینٹ غازی آباد، گڑھی شاہو، کینال بینک، دھرم پورہ، باجا لائن، تاج پورہ، تاج باغ، الطاف کالونی، ہربنس پورہ، مصطفیٰ آباد، عسکری فیز 10، 9 اور دیگر شامل ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے انتخابات 2008 ءاور 2013ءمیں کامیابی حاصل کی۔

 نئی حلقہ بندیوں کے تحت لاہور کا حلقہ این اے 126 اب این اے 130 بن چکا ہے جس میں گلبرگ، ماڈل ٹاﺅن، پیکو روڈ، گارڈن ٹاﺅن، اقبال ٹاﺅن، وحدت روڈ، اچھرہ، شادمان، فردوس مارکیٹ، سمن آباد، کلمہ چوک، اولڈ ایئر پورٹ، عسکری 5 فلیٹس، ماڈل ٹاﺅن ایکسٹینشن شامل ہیں۔ عمر سہیل ضیاءبٹ نے انتخابات 2008ءمیں کامیابی حاصل کی تھی۔ 2013ءمیں یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار شفقت محمود نے کامیابی حاصل کی تھی۔ لاہور کی یہ وہ واحد قومی اسمبلی کی سیٹ تھی جہاں سے پی ٹی آئی کو کامیابی نصیب ہوئی تھی۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 132 میں برکی ہڈیارہ، پنگالی، میر جاہمن، جلو، ڈی ایچ اے فیز 8، کاہنہ 9، کمیٹی کاہنہ، بھٹہ چوک، بیدیاں روڈ، گجومتہ، جھلکے، گاگا، روڈاں والا اور ہیر شامل ہیں۔ پہلے یہ حلقہ این اے 130 کہلاتا تھا۔ چھٹی مردم شماری کے بعد لاہور میں حلقہ این اے 131 کا اضافہ ہوا ہے اس لیے اسے واضح کرنے کیلئے ترتیب سے ہٹ کر بیان کیا جارہا ہے تاکہ قارئین بہتر طور پر اس نئے حلقے سے واقف ہو سکیں۔ این اے 131 میں آر اے بازار، کیولری، والٹن، ڈیفنس، بیدیاں روڈ، ایئر پورٹ، علی پارک نادر آباد، عارف آباد، بیدیاں، بھٹہ چوک، غوثیہ پارک، شوکت ٹا ﺅن، محمد پورہ اور چونگی امر سدھو شامل ہیں۔ لاہور کے علاقے کوٹ لکھپت، دلکش کالونی، اتفاق فیکٹری، مولانا
شوکت علی روڈ، باگڑیاں روڈ،،لیاقت آباد، قینچی چونگی، ٹاﺅن شپ جوہر ٹاﺅن اور وفاقی کالونی پر مشتمل حلقے کو این اے 133 کانام دیا گیا ہے، پہلے یہ حلقہ این اے 127 کہلاتا تھا۔ کاہنہ نو، باگڑیاں، دھرم پورہ، راکھ چندربابا، کچا جیل روڈ، اتحاد پارک، ستارہ کالونی، پاک ٹا ﺅن، کماہاں روڈ، سادھوکی (ویلنشیا ٹا ﺅن)، کچہ، کماہاں، محمد علی کالونی، گلشن یاسین کالونی اور المعراج کالونی کے رہائشی این اے 134 میں ووٹ کاسٹ کریں گے، پہلے یہ علاقہ این اے 129 میں آتا تھا۔لاہور کے ذیل میں دیے گئے علاقے این اے 135 کا حصہ ہوں گے، پہلے یہ حلقہ این اے 128 تھا۔ ٹھوکر نیاز بیگ، اعوان ٹاﺅن، رائیونڈ تحصیل، رکھ کھمبا، کاہنہ نو، خوشحال پارک، جلال پارک، حسن ٹاﺅن، کھاڑک نالہ، علامہ اقبال ٹاﺅن، مرغزار کالونی، مہر پورہ، مصطفیٰ آباد، رانا ٹاﺅن، ہنجروال شامل ہیں۔ این اے 128 اب نئی حلقہ بندیوں کے بعد این اے 136 بن چکا ہے، اس میں چوہنگ، مانگا منڈی، مراکہ، رائیونڈ شہر، نوازش آباد، موہلنوال، بھائی کوٹ، مانگا اتر، شامکے بھٹیاں، علی حسین آباد، بابا زندہ پور، موہنی وال اور پنجاب ہاﺅسنگ سوسائٹی شامل ہیں۔ 2013 ءکے انتخابات میں اس حلقے کو 128 کا نمبر دیا گیا تھا۔ خواتین رپورٹرز کے مطابق وہ تمام حلقوں کا سروے کر چکی ہیں،لاہور میں مسلم لیگ ن کے سپورٹرز پی ٹی آئی سے زیادہ ہیں،اس لئے ان کی رائے کے مطابق2018ءکے انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن لاہور میں فاتح رہے گی۔ ایک خاتون رپورٹر کے مطابق تحریک انصاف دوسرے نمبر پر ہے،اس لئے نتائج بھی اسی ترتیب سے آنے کی توقع ہے۔ میری ایک اور دوست رپورٹر کی بھی یہی رائے تھی کہ پانامہ کیس میں نوازشریف کی نااہلی بھی مسلم لیگ (ن) کی عوامی مقبولیت کو کم نہ کرسکی اور حیران کن بات یہ ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ لاہور میں ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے۔ اگر لاہور میں مسلم لیگ ن کی لہر ہے تو کیا ایسا ممکن ہے کہ پورے پنجاب میں ن لیگ جیتے گی ؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب پچیس جولائی کو ہی مل سکے گا۔

مزیدخبریں