سائفر کیس کب، کیوں بنا، تحقیقات سے سزا تک کیا کچھ ہوا، مختصر جائزہ

30 Jan, 2024 | 06:30 PM

سٹی42: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور پارٹی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں 10، 10 سال قید کی سزا سنائی کیوں گئی ہے یہ سوال بہت سے ذہنوں میں ہے اور عام شہری اس کیس کو جاننا چاہتے ہیں۔ 

سائفر گیٹ اور سائفر کیس کے نام سے مشہور یہ مقدمہ ان الزامات سے متعلق ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واشنگٹن میں ملک کے سفیر کی طرف سے اسلام آباد میں حکومت کو بھیجی گئی خفیہ کیبل کے مواد کو  پبلک کیا تھا۔

قید کی دوسری سزا

حالیہ مہینوں میں پی ٹی آئی کے بانی کے لیے یہ دوسری سزا ہے۔ اس سے قبل انہیں کرپشن کیس میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بدعنوانی کی سزا کو چیلنج کرنے کے نتیجہ میں ان کی جیل کی سزا حتمی فیصلہ ہونے تک معطل کر دی گئی تھی، لیکن اس سزا نے پہلے ہی انہیں اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات سے باہر کر دیا تھا۔

آج کے فیصلے کا زبانی اعلان خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں دونوں ملزموں- سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ  کی موجودگی میں کیا۔

سائفر کیس سننے والی خصوصی عدالت کیا ہے

خصوصی عدالت آفیشل سیکرٹ ایکٹ 2023 کے تحت قائم کی گئی ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 2023 کے تحت بننے والے مقدمہ کو سننے کے لئے آئین کے مطابق عدلیہ کے حاضر سروس جج پر مشتمل خصوصی عدالت تشکیل دینا لازم ہوتا ہے۔ اس مقدمہ کے لئے سینئیر جج ابوالحسنات ذوالقرنین کو خصوصی عدالت میں جج مقرر کیا گیا۔ ان کا  کیرئیر غیر جانبداری اور قانون فہمی کے حوالے سے شاندار ریکارڈ کا حامل ہے۔

 جج ابوالحسنات  ذوالقرنین گزشتہ سال سے دونوں ملزموں کی سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔

ملزموں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا

دونوں سیاستدانوں نے سیاسی مقاصد کے لیے سفارتی کیبل کے مبینہ غلط استعمال سے متعلق جرم میں اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

آخری سماعت میں ملزم عمران خان کا سیکشن 342 کا بیان

فیصلہ سنانے سے قبل جج ذوالقرنین نے سماعت کے دوران پی ٹی آئی رہنماؤں کو یاد دلایا کہ ان کے وکلا بار بار موقع دیئے جانے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہو رہے اس لئے آخر کار انہیں ریاستی وکلاء فراہم کیے گئے ہیں۔

عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ شاہ محمود قریشی اور عمران خان کو  پی پی سی کی سیکشن 342 کے تحت سوالات دیئے گئے تاہم قریشی نے کہا کہ ان کے وکیل موجود نہیں ہیں تو وہ اپنا بیان کیسے ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ملزم عمران خان نے البتہ سیکشن 342 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا تھا۔

یہ فیصلہ سائفر کیس کی 29 جنوری کی سماعت کے ملتوی ہونے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے جب کمرہ عدالت میں عمران اور قریشی کے ہنگامہ آرائی کی وجہ سے کارروائی میں خلل پڑا تھا۔ 

عمران، قریشی کو ریاستی وکیل مل گئے۔
ہفتے کے روز، جج نے پی ٹی آئی رہنماؤں کی نمائندگی کے لیے ریاستی وکیل مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا، کیونکہ دفاعی وکلاء دوبارہ عدالت میں پیش ہونے میں ناکام رہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ریاستی وکلا ملک عبدالرحمان ایڈووکیٹ اور حضرت یونس ایڈووکیٹ کو کہا گیا تھا کہ وہ بالترتیب پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین اور قریشی کی بطور ریاستی وکیل نمائندگی کریں اور استغاثہ کے گواہوں پر جرح کریں۔

 اس سماعت میں بھی دونوں ملزموں نے شور شرابا کیا تھا اور عدالت کو ان کے عدالت سے غیر حاضر وکلا سے فون پر مشاورت کرنے کا وقت دینے کے لئے سماعت ملتوی کرنا پڑی تھی، ملزموں کی اپنے وکلا سے فون پر بات چیت کے بعدسماعت دوبارہ شروع ہونے پر بھی دونوں سیاستدانوں نے عدالت میں ہنگامہ کرنے کی کوشش کی تھی اور شاہ محمود قریشی نے ریاستی وکیل سے مقدمہ کی فائل چھین کر دیوار پر دے ماری تھی۔ 

جیل ٹرائل کالعدم ہونے کے بعد  وفاقی حکومت کی جیل میں ٹرائل کی منظوری

گزشتہ سال نومبر میں گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے جانے کے دوران، خان اور قریشی کی جانب سے مقدمے میں فرد جرم کو چیلنج کر دیئے جانے کے بعد، اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) نے کیس میں ان کی انٹرا کورٹ اپیلوں کی اجازت دیتے ہوئے ان کے جیل ٹرائل کو "کالعدم اور کالعدم" قرار دیا۔

تاہم وفاقی کابینہ نے ایک بار پھر دونوں سیاستدانوں کے جیل ٹرائل کے انعقاد کی سمری کی منظوری دے دی جس کے بعد ٹرائل جاری رہا۔

جس کے بعد خصوصی عدالت نے ایک بار پھر سائفر ٹرائل دوبارہ شروع کیا اور پی ٹی آئی کے دونوں رہنماؤں پر 13 دسمبر کو کیس میں دوسری بار فرد جرم عائد کی گئی۔

سائفر کیس میں سپریم کورٹ سے ضمانت ہوئی، رہائی نہ ہو سکی

22 دسمبر کو سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں عمران اور قریشی کی بعد از گرفتاری ضمانتیں منظور کیں۔ جبکہ عمران اپنے دوسرے کیس کی وجہ سے قید رہے، شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں رہائی کے بعد ایک دوسرے جرم کے مقدمہ میں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔

جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے خصوصی عدالت کو ملزمان کے خلاف کارروائی سے 11 جنوری تک روک دیا۔

بند کمرے میں سماعت کے احکامات سیٹ اسائیڈ، کھلی عدالت میں سماعت

سائفر کے افشا کا مقدمہ خفیہ ریاستی دستاویز سے متعلق ہونے کے سبب اس کیس کی سماعت بند کمرے میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ بند کمرے کی سماعت میں صرف فریقین کے وکلا اور گواہ موجود ہو سکتے ہیں اور اس طرح کی سماعت کی میڈیا میں رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہوتی۔

ملزمان کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائیر کئے جانے کے فوراً بعد 11 جنوری کو،  اسلام آباد ہائی کورٹ نے باقی تمام ضروری مقدمات کو ایک طرف رکھ کر اس درخواست کو سنا اور سائفر کیس کے ان کیمرہ ٹرائل کے احکامات کو ایک طرف رکھ دیا اور 14 دسمبر 2023 کے بعد کی تمام کارروائیوں کو غلط قرار دیا۔ اور خصوصی عدالت میں سماعت تاحکم ثانی روک دی۔

بعد ازاں، ریاستی وکیل کی جانب سے سائفر کیس کے گواہوں کے بیانات دوبارہ کھلی عدالت میں صحافیوں اور دیگر حاضرین کی موجودگی میں قلمبند کرنے کی یقین دہانی کے بعد حکم امتناعی واپس لے لیا گیا۔

گوہر نے پی ٹی آئی کارکنوں سے کہا کہ وہ پرسکون رہیں
آج 30 جنوری کو جیسے ہی فیصلے کا اعلان ہوا،  پی ٹی آئی میں عمران خان کے چنیدہ جانشین بیرسٹر گوہر علی خان نے پارٹی کارکنوں کو پرسکون رہنے کی تلقین کی اور ان پر زور دیا کہ وہ فیصلے پر قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔

گوہر ن خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں کو بتایا کہ 'ہماری توجہ انتخابات سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے، 8 فروری کو سب کا احتساب ہو گا۔

کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی سربراہ کے خلاف آئین اور قانون کو خاطر میں لائے بغیر مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیس کی سماعت کرنے والے جج خود ہی سوالات کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے یہ بھی اشارہ دیا کہ وہ فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے، یہ کہتے ہوئے کہ پارٹی کو IHC اور سپریم کورٹ پر اعتماد ہے۔

سائفرگیٹ کیا ہے؟ عمران نے پبلک کو کیا بتایا؟

واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ سے بھیجی گئی ایک خفیہ کیبل (سائفر) کو افشا کئے جانے اور اس کے مندرجات کو توڑ مروڑ کر پبلک کے سامنے لائے جانے کا  تنازعہ سب سے پہلے 27 مارچ 2022 کو ابھرا، جب عمران خان نے، اپریل 2022 میں اپنی برطرفی سے ایک ماہ سے بھی کم وقت پہلے، ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ہجوم کے سامنے ایک خط لہرایا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ایک غیر قوم کی طرف سے آیا ہے جس نے سازش کی ہے کہ میرے سیاسی حریف پی ٹی آئی کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔

عمران خان نے خفیہ  کیبل کے اصل مندرجات کو ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی اس قوم کا نام بتایا جس سے یہ آیا ہے۔ لیکن کچھ دنوں بعد، انہوں نے امریکہ پر ان کے خلاف سازش کرنے کاتفصیل کے ساتھ الزام لگایا اور الزام لگایا کہ اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا کے امور ڈونلڈ لو نے ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا تھا۔

سائفر  جس کا عمران خان حوالہ دے رہے تھے وہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر مجید کی لو سے ملاقات کے بارے میں تھا۔

سابق وزیر اعظم نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہ سائفر سے مواد پڑھ رہے ہیں، کہا کہ اس میں لکھا ہے، "اگر عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو پاکستان کے لیے سب کچھ معاف ہو جائے گا"۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس

پھر 31 مارچ کو، قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) نے اس معاملے کو اٹھایا اور فیصلہ کیا کہ امریکہ کو اس کی "پاکستان کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت" کے لیے "مضبوط ڈیمارچ" جاری کیا جائے۔

بعد ازاں ان کی برطرفی کے بعد اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے دوبارہ قومی سلامتی کمیٹی این ایس سی کا اجلاس بلایا جس میں اجلاس اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کیبل میں غیر ملکی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

عمران خان، اسد عمر اور اعظم خان کی آڈیو لیکس

کچھ دن بعد عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور ان کے معتمد خاص اسد عمر کی باہمی گفتگو کی ریارڈنگ منظر عام پر آ گئیں۔ ان دو آڈیو لیکس میں جنہوں نے انٹرنیٹ پر طوفان برپا کر دیا اور ان واقعات کے بعد عوام کو چونکا دیا، سابق وزیر اعظم، اس وقت کے وفاقی وزیر اسد عمر اور اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری اعظم کو مبینہ طور پر امریکہ میں پاکستانی سفارتخانہ سے بھیجے جانے والے سائفر اور اپنے سیاسی فائدہ کے لئے "اسے استعمال کرنے" کے طریقہ پر گفتگو کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

معاملہ کی تحقیقات اور مقدمہ کا اندراج

 سائفر گمشدگی سے متعلق رسمی طور پر  انکوائری کا آغاز پانچ اکتوبر 2022 کو ہوا، ایف آئی اے  نے سائفر کے متعلق ملزم عمران خان، ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور دیگر متعلقہ افراد سےتحقیقات کے بعد قرار دیا کہ سنگین جرم واقعی سرزد ہوئے ہیں۔ اس تحقیقات کی روشنی مین ایف آئی اے کی سفارش پر  15 اگست 2023 کو مقدمہ درج کیا گیا جس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ملزم نامزد کیا گیا۔

سائفر کیس کے ملزموں کی گرفتاری

وفاقی تحقیقاتی ادارے نے 16 اگست کو شاہ محمود قریشی جبکہ 29 اگست 2023 کو بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری ڈالی۔

30 اگست کو ایف آئی اے کی خصوصی عدالت میں مقدمے کی پہلی سماعت ہوئی ،17 اکتوبر تک اس عدالت نے مجموعی طور پر پانچ مرتبہ کیس سنا۔

خصوصی عدالت کا قیام

23 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے سائفر ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کے قیام کی منظوری دی جس کے بعد ابوالحسنات ذوالقرنین جج مقرر ہوئے اور اڈیالہ جیل میں سماعت شروع کی ، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے 21 نومبر کو بانی پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے کیس کا اِن کیمرا ٹرائل کالعدم قرار دیا تو کارروائی از سر نو شروع کی گئی۔

فرد جرم

4 دسمبر  2023 کو ملزمان میں مقدمے کی نقول تقسیم کیں گئی جبکہ 13 دسمبر کو فرد جرم عائد ہوئی، 14 دسمبر کو استغاثہ نے ان کیمرہ ٹرائل کی درخواست کی تو اس کے دوسرے روز دو گواہوں  اقراء اشرف اور عمران ساجد نے بیانات قلمبند کرا دیئے۔  اس مقدمہ مین استغاثہ کی جانب سے ابتدا میں 27 گواہوں کی فہرست پیش کی گئی بعد ازاں دو گواہیوں کو غیر ضروری قرار دے کر  بقیہ 25 گواہوں کی شہادتیں ریکارڈ کی گئیں۔

20 دسمبر کو دس  گواہوں جبکہ 23 دسمبر کو 12 گواہوں کی شہادتیں ریکارڈ ہوئیں، اس سماعت میں عدالے نے حکم دیا کہ کرسمس اور یوم قائد اعظم کی چھٹی کے فوراً بعد 26 دسمبر کو  عدالت گواہوں پر جرح شروع کروائے گی۔ اس وقت تک استغاثہ کے پیش کردہ گواہوں میں سے تین گواہوں پر جرح ہو چکی تھی اور باقی 22 گواہوں پر جرح کروانا مقصود تھا۔ 23 دسمبر کو بیانات ریکارڈ کرانے والوں میں مقدمہ کے پرائم گواہ  سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ، سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اور سابق سفیر اسد مجید شامل تھے۔

ملزمان کے وکلا کی جانب سے ٹال مٹول

26  دسمبر کو وکلائے صفائی نے گواہان کے دوبارہ بیانات ریکارڈ کرنے سمیت چھ متفرق درخواستیں دائر کیں۔ اس روز عدالت ملزمان کے وکلا صفائی سے گواہوں پر جرح نہیں کروا سکی تھی۔ استغاثہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان مقدمہ کی سماعت میں تاخیری حربے تسلسل کے ساتھ استعمال کر رہے ہین اور ان کی جانب سے مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے میں تاخیر کروانے کے لئے  40 درخواستیں دی جا چکی ہیں۔

ایک بار پھر ہائی کورٹ

ملزمان عمران خان اور شاہ محمودقریشی  کی جانب سے خصوصی عدالت میں متفرق درخواستیں دائر کئے جانے کے بعد ایک بار پھر اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔

29 دسمبر 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ قرار دیا کہ خصوصی عدالت مقدمہ کی روزانہ سماعت کر کے غلط کر رہی ہے۔ عدالت عالیہ کے معزز بنچ نے خصوصی عدالت کو مقدمہ کی سماعت پر (جس میں گواہوں پر جرح ہونا تھی)  11 جنوری تک حکم امتناع دے دیا،3  جنوری اور پھر 8 جنوری کو حکم امتناع کے باعث خصوصی عدالت میں کوئی  کارروائی نہ ہو سکی۔

14 دسمبر کے بعد کی عدالتی کارروائی ان کیمرہ ہونے کے سبب کالعدم

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ملزموں کی پیٹیشن کی سماعت میں12 جنوری کو پراسیکیوٹر موجود نہیں تھے ، اسی دوران ہائیکورٹ نے 14 دسمبر کے بعد کی عدالتی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا۔

گواہوں کی شہادتوں کو دوسری بار ریکارڈ کیا گیا

استغاثہ  نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے 15 جنوری کو چار  گواہوں، 16 جنوری کو چھ گواہوں، 18 جنوری کو سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سمیت پانچ  گواہوں جبکہ 22 جنوری کو چار گواہوں کے بیانات کھلی عدالت میں ریکارڈ کروائے جن میں سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود ، سابق سیکرٹری داخلہ اور شکایت کنندہ یوسف نسیم کھوکھر بھی شامل تھے۔

30 جنوری کو موجودہ سیکرٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی اور سابق سفیر اسد مجید سمیت مزید  چھ گواہوں کی شہادتیں ریکارڈ ہوئیں۔ اس طرح 25 گواہوں کو عدالت مین دو مرتبہ گواہی ریکارڈ کروانا پڑی۔

گواہوں پر جرح

 گواہان پر جرح کا آغاز 24 جنوری کو ہوا اور پہلے روز صرف تین گواہوں پر جرح ہو سکی، 26 جنوری کو وکلائے صفائی پیش نہ ہوئے اور التوا کی درخواست بھجوا دی۔

وکلا صفائی کی مسلسل غیر حاضری، پیش ہو کر جرح کرنے کے دو مواقع

سائفر عدالت نے ملزمان کے وکلا کو حاضری کے دو مواقع دیئے پھر بھی پیش نہ ہونے پر حق جرح ختم کر دیا اور ملزمان کیلئے ریاستی وکلائے صفائی مقرر کر دیئے۔

ریاستی وکلاِ صفائی

ریاستی وکیل ملنے پر ملزمان سیخ پا ہو گئے اور 27 جنوری کی سماعت میں شاہ محمود قریشی نے کیس فائل دیوار پر دے ماری۔ اس روز دس گواہان پر سرکاری وکلا نے جرح کی۔

29 جنوری کو سابق سیکرٹری اعظم خان سمیت دس گواہان پر جرح ہوئی اور 30 جنوری کو عدالت نے کیس کا فیصلہ سنا دیا۔

 اپیل میں جائیں گے

عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان ذوالفقار بخاری نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ، سائفر کیس کا حصہ ہے، عمران خان اور شاہ محمود قریشی دونوں کو  قانون اپیل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

باقی مقدمات

سائفر کیس  عمران خان کے خلاف درجنوں زیر التوا مقدمات میں سے صرف ایک ہے، ان مقدمات میں توہین عدالت سے لے کر دہشت گردی اور تشدد پر اکسانے کے الزامات تک کے دیگر  سنگین الزامات کے مقدمات شامل ہیں۔ سر دست عمران خان کے خلاف نیب کی جانب سے بھیجا گیا توشہ خانہ ریفرنس اسلام آباد احتساب عدالت میں سماعت کے مراحل تیزی سے طے کر رہا ہے۔ اس مقدمہ میں بھی ملزم عمران خان اور ان کی شریک ملزمہ اور اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے وکلا مسلسل عدم تعاون کر رہے ہیں جسے بنیاد بنا کر عدالت نے گزشتہ سماعت کے دوران ملزمان کے وکلا کے جرح کرنے کے حق کو ساقط کر دیا ہے۔

امریکہ کا مؤقف

خان نے 2022 میں جب پبلک میں زور دے کر کہا کہ قومی اسمبلی میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد  دراصل ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی امریکی سازش کا حصہ ہے۔ تو اس کے دوسرے دن ہی اسلام آباد میں امریکہ کے سفارتخانہ نے پاکستان کے دفتر خٓرجہ کے ساتھ رابطہ کر کے اس الزام پر اپنی تشویش کا اظہار کیا کیونہ اس سے امریکہ کے پاکستانی عوام اور باقی دنیا مین امیج پر بہت برا اثر پڑنے کا احتمال تھا۔ بعد ازاں وقتاً فوقتاً کئی مرتبہ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی صحافیوں کے لئے معمول کی بریفنگز کے دوران صحافیوں کی جانب سے عمران خان کے الزامات کا حوالہ دے کر امریکی حکومت کا مؤقف معلوم کیا گیا، ہر مرتبہ امریکی حکام نے سختی کے ساتھ عمران خان کے الزامات کی تردید کی۔

امریکی حکومت نے عمومی طور پر اس معاملہ کو پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دیا۔  تاہم، واشنگٹن اپنی طرف سے مسلسل ایسی کسی سازش میں ملوث ہونے کی تردید کرتا رہا ہے۔

پی ٹی آئی کا ردعمل
عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی نے سوشل پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، "پاکستان کی سالمیت کے لیے ظلم اور فاشزم برداشت کرنے کے باوجود، کپتان اور نائب کپتان کا ایک ہی پیغام ہے "غلامی قبول نہیں"۔

پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ، "پاکستان عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے ساتھ کھڑا ہے، جنہوں نے پاکستان کا دفاع کیا اور حقِ آزادی کے لیے کھڑے ہوئے۔ ڈونالڈ لو کے حکم پر مارچ-اپریل 2022 میں جو کچھ ہوا اس کو اس طرح کی کوئی بھی دھوکہ دہی نہیں بدل سکتی۔

پی ٹی آئی کی جانب سے نے ایک اور پوسٹ میں کہا گیا، "اگر کوئی یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ یہ ٹرائل کتنا ڈھونگ تھا، تو یہاں یہ ٹویٹ کافی ہے۔ قانون کا بالکل ہی مکروہ اور شرمناک مذاق۔‘‘

پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ یہ ایک "مکمل مذاق اور سائفر کیس میں قانون کی بے توقیری ہے"، پارٹی نے لوگوں سے 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اپیل کی۔

اس نے مزید کہا، "انشاء اللہ کپتان اور نائب کپتان جلد ہی واپس آئیں گے، اور یہ سزا اپیل کے مرحلے میں کوڑے دان میں ڈال دی جائے گی۔"

مزیدخبریں