فقیر خانے سے لاہور جنرل ہسپتال تک کا سفر

30 Jan, 2019 | 12:27 PM

ملک ریاض

(ملک ریاض) دنیا میں بہت سے ایسے حکمران آج بھی ہیں جو بے سہارا، بھکاریوں اور بے یارو مددگار افراد کے لئے سوچتے ہیں ،ان کی زندگی کا سہارا بنتے ہیں، انکو زندگی کی بنیادی سہولیات دینے کی کوشش کرتے ہیں، آج بھی موجودہ حکومت ایسے افراد کو شیلٹر ہومز کی سہولت دے رہی ہے۔ ایسے ہی ماضی میں شہر لاہور کے بے سہارا لوگوں کے لئے دارالفلاح بنایا گیا۔ تاکہ معاشرے کے بے سہارا مکینوں کو چھت میسر ہو سکے۔

 تیس ستمبر 1958ءکے دن گورنر جنرل پاکستان سکندر مرزا کی اہلیہ اوراس وقت کی خاتون اوّل بیگم ناہید سکندر مرزا نے شہر سے تقریباً سترہ کلو میٹر دور فیروز پور روڈ پر دارالفلاح کے نام سے ایک گدا گر خانے کا سنگ بنیاد رکھا۔ پچیس کنال زمین پہ تعمیر ہونے والی اس پناہ گاہ کا پہلا حصہ 1958ءمیں مکمل ہوا۔ بیگم ناہید اختر نے اس کا افتتاح کیا۔ دارالفلاح کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بے آسرا افراد کو در بدر ہونے سے بچایا جائے۔اور معاشی حالات سے تنگ بھکاریوں کے عزت نفس کو جتنا ممکن ہوسکے، پامال ہونے سے بچایا جائے۔ لیکن! یہ ادارہ ان بے سہارا لوگوں کا زیادہ دیر تک سہارا نہ بن سکا۔ اور یہ کامیابی سے نہ چل سکا۔

 حکومت وقت نے فیصلہ کیا کہ اسکو صحت کے شعبہ میں تبدیل کر دینا چاہیے۔ 1959ء کے شروع میں اسے شفاخانے میں تبدیل کر دیا گیا اور اسکا نام لاہور جنرل ہسپتال رکھا گیا۔ مغربی پاکستان کے گورنر اختر حسین نے 29 جنوری 1959ء کو ہسپتال کا افتتاح کیا۔ آغاز میں انفراسٹرکچر سمیت بہت سے مسائل کا سامنا رہا۔ اس ہسپتال کے پہلے ایم ایس کا نام ڈاکٹر ایم اے شکور تھا۔

”میڈیکل تعلیمی اداروں سے وابستگی “

سب سے پہلے 1962ء میں یہاں نرسنگ سکول بنایا گیا جو اب کالج کا درجہ پاچکا ہے۔ 1966ء میں لاہور جنرل ہسپتال کوکنگ ایڈورڈ میڈیکل کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ 1974ءمیں جب پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ قائم کیا گیا۔ تو جولائی 1975ء میں لاہور جنرل ہسپتال کو پوسٹ گریجوایٹ انسٹی ٹیوٹ کیساتھ منسلک کردیا گیا۔ لاہور جنرل ہسپتال سے منسلک امیرالدین میڈیکل کالج میں انڈر گریجوایٹ میڈیکل کی تعلیم دی جاتی ہے۔2014  ءمیں لاہور جنرل ہسپتال میں الائیڈ ہیلتھ سائنسز سکول بھی قائم کیا گیا۔

آج سے تقریباً تیرہ سال پہلے اس ہسپتال میں صرف بارہ بستروں کی ایمرجنسی تھی۔ پھر اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اس ہسپتال میں ایک سو دس بستروں کی ایمرجنسی بنوائی ،اور بھی بہت سی سہولیات دیں۔2003ءاور 2004ءاس ہسپتال میں بہت ہی عالیشان عمارتیں بنوائی گئیں۔مختلف قسم کے علاج کے لئے طبی تحقیق اور تشخیصی مراکز قائم کر دیئے گئے۔

ماضی کے حکمرانوں نے اس ہسپتال کی تعمیرات اور ترقی میں گہری دلچسپی لی۔اور یوں اس ادارے کو چار چاند لگا دئیے۔ اس ادارے کی ملکی اور بین الاقوامی سطح پہ سب سے بڑی پہچان پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیوروسائنسز ہے۔ہزاروں مریضوں کو علاج کی سہولیات دے رہا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود ، نیورسرجری کے وہ نامور پروفیسر ہیںجنہوں نے پاکستان میں پہلی بار “ڈی بی ایس” رعشہ پارکنسن کے علاج کا آغاز کیا اور مریضوں کو ہوش میں رکھ کر دماغ کے آپریشن کر کے رسولیاں نکالیں۔ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود ڈی بی ایس کے پاکستان میں بانی ہے۔ انہوں نے ملک کا نام روشن کیا۔

لاہور جنرل ہسپتال کے سٹاف کی قربانیاں “

لاہور جنرل ہسپتال کی تاریخ یہاں پر کام کرنے والے ڈاکٹرز اور نرسز کی خدمات کی داستانوں سے بھری پڑی ہیں۔ 1965ءکی جنگ کے دوران اس وقت کی سٹوڈنٹ نرس رضیہ بشارت کہتی ہیں کہ بھارت نے جب کوٹ لکھپت ریلوے سٹیشن پر حملہ کیا تو وہاں سے زخمیوں کو علاج کے لئے لاہور جنرل ہسپتال لایا گیا۔

نرس اسما کنول کی بات کرینگے جو مریضوں کی تیمارداری کے دوران ڈینگی کا شکار ہوئیں اور جان کی بازی ہار گئیں اور بھی سینکڑوں افراد ایسے ہیں جنہوں نے تیس سال سے زائد یہاں سروس کی۔ ریحانہ طفیل بتاتی ہیں کہ1988ء میں یہاں چوبیس گھنٹے میں بیس اور رات کی شفٹ میں ایک مریض آتا تھا۔

لاہور جنرل ہسپتال کی عمر ساٹھ سال ہوچکی ہے، گو کہ اس ہسپتال کو ملک کے دیگر ہسپتالوں کی نسبت زیادہ حکومتی توجہ حاصل رہی۔ ابھی بھی بہت سے چیلنجر کا سامنا ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا ہے۔ مریضوں کی تعداد زیادہ ہے اور اس حوالے سے سہولیات کم ہیں۔ مریض کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔

جب وہاں پر آئے مریضوں سے پوچھا تو وہ شکوہ کناں ہیں کہ یہاں ڈاکٹرز اور عملے کی تعداد کو بڑھانا چاہیے۔ جدید مشینری کو بڑھانا چاہیے۔ ایمرجنسی میں بستروں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیے۔

پرچی سسٹم میں بہتری لانی ہوگی۔ پہلے پرچی، پھر مریض کو چیک کیا جائے گا، اس نظام کے حوالے سے بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔

سکیورٹی کو بھی مزید بہتر کرنا ضروری ہے، پارکنگ کے نظام کو ہنگامی بنیادوں پہ ٹھیک کرنا ہوگا۔

مزیدخبریں