عمران خان کے بیانات میں چھپے الفاط "ڈی کوڈ" ہوگئے

تحریر: عامر رضا خان

30 Aug, 2024 | 09:23 PM

ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات نے بہت سے چہروں کو کھول کر رکھ دیا ہے ، دیکھنے والوں  کو صاف نظر آرہا ہے کہ کون کون سے دو گروہ آمنے سامنے ہیں لیکن جمعہ کے روز تو ان دونوں گروپوں نے خوب دل کھول کر اپنے اپنے مافی الضمیر کو بیان کیا کہ اب کوئی ابہام نہیں رہا کے فیصلہ کُن جنگ لڑنے کا مرحلہ درپیش ہے جس میں پاکستان سے محبت کرنے والے ایک گروپ میں اور پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والے دوسرے جتھے میں آمنے سامنے آچکے ہیں ،کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا 26 اگست کو ہونے والے واقعہ نے صاف لکیر کھینچ دی دہشت گردی اور قانون کی عملداری کے مابین اس بڑی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اب پاکستان کی محبت میں گرفتار ایک طرف اور ہوس اقتدار کے لالچ میں گرفتار شیطانی گروہ دوسری جانب کھڑا ہے ۔
 اب آئیں اس طرف کے مجھے اب یہ خیال کیوں آیا ؟ اڈیالہ جیل میں قید لاڈلے وی وی آئی پی قیدی کا بیان میرے سامنے تھا جو اپنے الفاظ میں ایسا زہر لیے ہوئے تھا جسے بیان کرنا ضروری تھا ، صحافیوں کو دئیے گئے ان بیانات کے ذریعے عمران خان کو اپنے قبیل کے دوسرے لوگوں تک پیغام پہنچانے کی گراں قدر سہولت میسر ہے بانی انتشار نے صحافیوں سے کیا بات کی اور اس گفتگو میں کیا کیا پیغام ملک بھر میں پھیلے اپنے کارندوں تک پہنچایا گیا ہے پہلے اس ایک بیان کے کوڈ سُن لیں اسے ڈی کوڈ بعد میں کرتے ہیں،اڈیالہ جیل میں قید سپیشل قیدی عمران خان کا صحافیوں سے کہنا تھا مجھے ملک کے لیے جو سب سے بڑا چیلنج جو نظر آرہا ہے وہ " معیشت" ہے ،پہلے سنا تھا 50 سال میں سب سے کم سرمایہ کاری ملک میں آئی ،ملک تباہی کی جانب جا رہا ہے "سیاسی عدم استحکام" اور "دہشت گردی" کا بڑھنا خراب معیشت کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔

 پہلے ہم پر ڈال رہے تھے کہ دہشت گردی ہمارے "سیٹلمنٹ پلان" کی وجہ سے ہو رہی ہے اب کہہ رہے ہیں کہ سرحد پار سے دہشت گردی ہو رہی ہے، ٹی ٹی پی دہشت ، "کچے کی دہشت گردی" ، "بلوچستان میں دہشت گردی" اور" بڑھتے جرائم "میں کون ملک میں سرمایہ کاری کرے گا،ملک میں صوبائیت" کا بہت بڑا خطرہ ہے ،بلوچستان دہشت گردی پر پنجاب میں احتجاج کروایا گیا، پی ٹی آئی ملک کی واحدجماعت ہے،جو چاروں صوبوں میں موجود ہے ہم عوام کو متحد کر سکتے ہیں "سیاسی جماعتیں عوام کو اکٹھا کر سکتی ہیں فوج نہیں اگر ایسا ہوتا تو مشرقی پاکستان نہ ٹوٹتا" جو یہ فیصلے کر رہے ہیں ،انہیں ملک کی فکر نہیں بلوچستان کے جو اس وقت حالات ہیں ہماری کوشش ہونی چاہیے "بلوچوں کو ساتھ لے کر چلیں"  ملک میں انتشار نہ پھیلے یہ سوچ کر جلسہ ملتوی کیا، برے وقت میں جو پارٹی چھوڑ کر گئے ان کے لیے پی ٹی ائی میں کوئی جگہ نہیں ہے بہت کم ایسے لوگ ہیں جنہوں نے بہت مشکل وقت میں پارٹی کو مجبوری میں چھوڑا، وہ تمام لوگ جو سخت حالات میں "انڈر گراؤنڈ "چلے گئے سختیاں اور تشدد برداشت کیا ان کیلئے بہتر فیصلہ ہو گا، فیئر ٹرائل میرا حق ہے اور یہاں فیئر ٹرائل کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں "جتنے حالات خراب ہو رہے ہیں اتنی سختیاں بڑھائی جارہی ہیں" ۔
عمران خان نے جو لمبی چوڑی میڈیا ٹاک کی یہ اس کا خلاصہ ہے اس کو باآسانی ڈی کوڈ بھی کیا جاسکتا ہے اگر ہم قومہ کے درمیان والے الفاظ کو ایک دو بار اضافی پڑھ لیں تو جیسے کہ سب سے بڑا چیلنج معیشت ہے یعنی کارکنان کو مزید اکسایا جارہا ہے کہ تاجروں کی ہڑتال جیسے مزید ایونٹس کو ہوا دی جائے حکومت کی تو کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہورہی ہے اسے روکنا ہوگا ، ملک تباہی کی طرف جارہا ہے کچے کی دہشت گردی ، بلوچستان کی دہشت گردی میں کون سرمایہ کاری کرئے گا ؟ یعنی جتنے یہ واقعات کو ہوا دی جائے گی بین الاقوامی سطح پر ہونے والی سرمایہ کاری کو روکا جاسکے گا ، ملک میں صوبائیت برا خطرہ ہے ظاہر ہے دہشت گردی کو بلوچ پنجاب تنازع بنایا جائے گا تو مزید عدم استحکام آئے گا ، پھر فرمایا کہ سیاسی جماعتیں عوام کو اکٹھاکرسکتی ہیں فوج نہیں اگر ایسا ہوتا تو مشرقی پاکستان نا ٹوٹتا ۔
یہ سب سے خطرناک اشارہ ہے کہ جلد از جلد فوج مخالف جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے اور مشرقی پاکستان جیسی صورتحال بنائی جائے تو مزموم مقاصد کی جلد تکمیل ہوسکتی ہے اور پھر فرمایا کہ انڈر گراونڈ افراد کے لیے بہتر فیصلہ ہوگا یعنی جو جو لوگ اندر گراوند ہیں وہ اپنی تیاری مکمل رکھیں جلد اُن کے بارے میں اہم فیصلہ یا اشارہ آنے والا ہے جس کے بعد مزید عدم استحکام کی نئی لہر پیدا کی جاسکے گی ، اور پھر کہتے ہیں کہ مجھے فیئر ٹرائل نہیں دیا جارہا یعنی غیر ممالک میں پاکستانی عدالتوں کو متنازعہ بنانے کا اشارہ ہے ۔
یہ ہیں وہ پیغام جو روزانہ کی بنیاد پر صحافتی سہولت کاری کے نتیجے میں اپنے کارکنوں تک گائیڈ لائن کے طور پر پہنچائی جارہی ہیں اور یہ ہے وہ نیٹ ورک جسے پکرنے روکنے کا کوئی انتظام نہیں کیا جارہا ، عمران خان نے الفاظ اور اس کی ڈی کودنگ کو یاد کرانے کے لیے سالہا سال کی ریاضت کر رکھی ہے تحریک انصاف کے جلسے اور عمران خان کے ٹی وی خطاب اس بات کی گواہی ہیں کہ عمران خان اسی طرح ایک سے دوسرے لفط کو جوڑ کر اپنا پیغام پہنچانے اور اُس کے ماننے والے ان الفاظ کو ڈی کوڈ کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں اور یہ سلسلہ سہولت کاری آج بھی جاری ہے حکومت اور ادارے جنرل فیض حمید ، ڈپٹی سپریٹنڈنٹ سمیت چند اہلکاروں کو پکڑ کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ پیغام رسانی رک گئی جی نہیں یہ آج بھی جاری  ہے جب تک صحافیوں جیسی سہولت عمران خان کو میسر رہے گی اُس وقت پیغام رسانی کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا 

مزیدخبریں