اظہر تھراج | سپین میں ایک تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے ایک سکہ لیا اور سیاستدانوں کو اس سکے کو اکیلے میں اچھال کر ٹاس کرنے کو کہا، سیاستدانوں کو بتایا گیا تھا کہ اگر سکہ گرنے پر ’ہیڈ‘ آیا تو انہیں کچھ انعام ملے گا تاہم اگر ’ٹیل‘ آئی تو کچھ نہیں لے گا،سیاستدانوں نے یہ سکہ اچھالا اور 69فیصد نے بتایا کہ ان کا ’ہیڈ‘ آیا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں صرف 50فیصد کا ہیڈ آیا تھا اور باقی سب نے معمولی فائدے کے لیے جھوٹ بول دیا۔ رپورٹ کے مطابق اس تحقیق میں سپین کے 816میئرز کو شامل کیا گیا تھا۔ نتائج میں سائنسدانوں نے بتایا کہ جب بھی آپ کسی سیاستدان کو کسی ایسی گیم میں شامل کریں گے جس میں جیتنے میں فائدہ ہو تو وہ جھوٹ بولے گا، سیاستدانوں کی اکثریت ایسا ہی کرتی ہے چنانچہ یہ لوگ الیکشن جیتنے اور اقتدار میں آنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ اس میں ان کا فائدہ ہوتا ہے۔
حقیقت میں بھی کیا ایسا ہی ہے؟ تو آپ کو نفی میں جواب دینے والا کوئی نہیں ملے گا بلکہ سب ہاں میں ہی جواب دینگے ،پروپیگنڈا کے بادشاہ گوئبلز کہتے تھے کہ اگر آپ جھوٹ بولیں اور اسے دہراتے چلے جائیں تو وہ سچ لگنے لگتا ہے وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ’جتنا بڑا جھوٹ بولو گے اتنا اس پر یقین کیا جائے گا۔
پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر بھونچالی کیفیت ہے، نواز شریف سب کے اعصاب پر سوار ہیں،حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایسے ایسے بیانات آرہے ہیں کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا ناممکن نظر آتا ہے،آج کل ایسے لگتا ہے ملک میں صرف نواز شریف ہی سب کچھ ہے،حکومت اور اپوزیشن دونوں کی سیاست اسی ایک شخص کے ارد گرد گھوم رہی ہے،ایک فریق مخالفت کرتے نہیں تھکتا تو دوسرا فریق صفائیاں دیتے ہلکان ہوا جاتا ہے۔کیا نواز شریف این آر او کے تحت باہر گئے؟ اس پر بھی بحث جاری ہے۔
میں نے لکھا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو این آر او مل چکا ہے اور اب وہ میڈیکل بنیاد پر ضمانت مل جانے کے بعد بیرون ملک چلے جائیں گے،ایسا ہی ہوا اچانک نواز شریف کی صحت بگڑتی ہے، میڈیا پر شور مچتا ہے، مریم نواز کا خاموش ٹوئٹر اکائو نٹ سابق وزیراعظم کی صحت کیلئے فکرمند ہوجاتا ہے، میڈیا پر پل پل کی خبریں آنا شروع ہوجاتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان کے بازو میں درد ہے، سانس لینے میں تکلیف ہے، دردناک انداز میں خبریں پیش کی جاتی ہیں۔ منظر بدلتا ہے اور ان کو سروسز اسپتال منتقل کیا جاتا ہے، مریم نواز کو بھی جیل سے لایا گیا،جب تک نواز شریف یہاں رہے مریم نواز بھی رہیں،پھر ائیر ایمبولینس آتی ہے اور نواز شریف لندن اڑان بھر جاتے ہیں،تب کے گئے نواز شریف اب تک لندن میں ہیں،نہ عدالت نے بلایا،نہ نیب نے لایا ۔
اس وقت کے بیمار نواز شریف کے بارے میں اب کہا جارہا ہے کہ ان کی میڈیکل رپورٹس غلط تھیں ،ان میں گڑ بڑ کی گئی،وزرا کہتے ہیں کہ عمران خان بھی سمجھتے ہیں ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا،ان سے دھوکا ہوگیا،ڈاکٹرز کہتے ہیں ہمارے پاس ثبوت ہیں،ایک ایک سیمپل موجود ہے ،سب کی تحقیقات کرائی جاسکتی ہیں۔وزیر اعظم بار بار کہتے ہیں کہ این آر او نہیں دوں گا،ان کے وزرا کہتے ہیں ”ڈیل “تو ہوئی ہے،اگر این آر او ہے تو پھر کس نے دیا؟ وزیر اعظم کی بات مانی جائے یا وزرا پر یقین کیا جائے؟
اب سوال یہ ہے کہ مسائل میں گھرے پاکستان میں نواز شریف کی واپسی سب سے بڑا ایشو کیوں بن گئی؟ کیا نواز شریف کی واپسی سے یہ تمام مسائل حل ہوجائیں گے جو ایک عام آدمی کو گھیرے ہوئے ہیں؟ کیا پاکستان کی معیشت بہتر ہوجائے گی ؟ کیا دودھ اور شہدکی نہریں بہنا شروع کردیں گی؟ بیرونی قرضے،گردشی قرضے معاف ہوجائیں گے؟ یہ حکومت میڈیا مینجمنٹ پر چل رہی ہے،اسی لئے بڑی تعداد میں ترجمانوں اور سوشل میڈیا ٹیم کو رکھا گیا ہے،ایک کے بعد ایک ایشو مارکیٹ میں ڈالا جاتا ہے پھر اس پر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے،موجودہ حکومت کے پاس نواز شریف سونے کا انڈا ہے،جب چاہتے ہیں اس ایشو کو میدان میں لے آتی ہے، نواز شریف کی واپسی کا معاملہ بھی اسی حکمت عملی حصہ ہے، نواز شریف اپنی مرضی کے بغیر نہیں آئیں گے،حکومت جتنے مرضی جتن کرلے برطانیہ نواز شریف کو ان کے حوالے نہیں کرے گا۔دوسرا یہ کہ جنہوں نے نواز شریف کو باہر جانے دیا وہی ان کو واپس لانا چاہتے ہیں،حکومت کو پتا چل گیا ہے کہ نواز شریف کی سیاسی سرگرمیاں اور واپسی خطرناک ہے،اسی خوف اور واپسی کا کریڈٹ لینے کیلئے ترجمانوں کی فوج ایک گراﺅنڈ بنارہی ہے کہ جب آئیں تو کہا جاسکے کہ ہم نے اپنا وعدہ پورا کردیا۔یہ سب سیاہ کو سفید،جھوٹ کو سچ کرنے کا کھیل ہے،یہ پروپیگنڈا اور بیوقوف بنانے کی چالیں ہیں،جو اچھا کھیل پیش کرگیا وہ کامیاب رہے گا ،ان کو عوام سے کوئی غرض نہیں،فی الحال عوام کو ان کی غرض نہیں۔
نوٹ: یہ رائٹر کے ذاتی خیالات ہیں ادارے کا اس سے کوئی تعلق نہیں