تحریر،عامر رضا خان:1918ء میں امرتسر کے گاؤں جاتی امراء کے ایک انتہائی متوسط گھرانے کا کشمیری خاندان کا فرد میاں محمد بخش خوش تھا جس کے ہاں اللہ پاک کی رحمت سے بیٹے کا جنم ہوا تھا اُس نے بچے کی فطری معصومیت کو دیکھتے ہوئے اس کا نام شریف رکھا ، 1938 میں یہ خاندان بہتر روزگار کی تلاش میں لاہور منتقل ہوگیا، 20 سالہ جوان میاں شریف میں آگے بڑھنے کی امنگ تھی قدرت نے اسے صحت مند جسم ، ذہین دماغ اور درد رکھنے والا دل دیا تھا اُس نے لاہور کی ایک ایسی انڈسٹری میں مزدوری شروع کی جہاں لوہے کے زرعی آلات بنائے جاتے تھے، کہتے ہیں یہاں سے نواب آف کالا باغ ،محمد شریف کو اپنے زرعی آلات کی دیکھ بھال کے لیے اپنے ساتھ لے گئے لیکن کچھ عرصہ بعد ہی محمد شریف نے اپنا کام کرنے کی ٹھانی کچھ جاننے والوں سے ادھار کا سامان اور پیسہ لیکر اللہ کا نام لیا اور اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر لاہور ریلوے روڈ پر لوہے کی چھوٹی سی فرنس (بھٹی) لگائی جس میں پرانے لوہے کو پگھلا کر مختلف آلات کے لیے پرزے بنائے جاتے تھے،بندے محنتی تھے اور ایماندار بھی اس لیے جلد نام بھی بن گیا اور سرمایہ بھی۔ اس طرح یہ خاندان لاہور کے رئیس خاندانوں میں شمار ہونے لگا ،1970 تک ایک بھٹی سے شروع ہونے والا سفر اتفاق فاؤنڈری تک پھیل گیا ، یہ وہ دور تھا جب پاکستان مین انڈسٹری پھل پھول رہی تھی، لاہور میں ایک جانب بٹالہ انڈسٹریز کے نام سے برا صنعتی یونٹ قائم تھا تو دوسری جانب اتفاق فاؤنڈری تھریشیر سمیت کئی ایک فوجی پرزہ جات بھی بنا رہی تھی (بٹالہ انڈسٹری بیکو کا ذکر پھر کبھی لکھوں گا )
اتفاق فاؤنڈری کی ترقی میں جہاں اس خاندان کا اتفاق اور ٹیکنیکل کام سے واقفیت تھی وہیں ان کی ایک خاصیت مزدور دوستی تھی اس فاؤنڈری میں کام کرنے والے چند افراد آج بھی بتاتے ہیں کہ میاں شریف مزدور کے لیے درد دل رکھنے والے انسان تھے۔خود بھوک کاٹ کر آگ کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے والے محمد شریف کو مزدور کے حالات اور آمدن میں فرق کا اندازہ تھا اس لیے اس فاؤنڈری میں مزدوروں کے لیے وہ تمام سہولیات میسر تھیں جو کسی اور جگہ نہ تھی جس میں سب سے بڑی سہولت براہ راست فاؤنڈری کے مالک میاں محمد شریف تک رسائی تھی جو مزدور کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے یا ہنس کھیل لینے کو ہی اپنی کامیابی گردانتے تھے ، کام کرنے والا سٹاف بھی بلا جھجھک اپنے دل کی بات کہتا بچیوں کی شادی ہو یا والدین کا علاج معالجہ اتفاق فاؤنڈری میں کام کرنے والوں کو صرف گزرتے گزرتے میاں شریف تک آواز پہنچانا ہوتی تھی اس کے بعد کام ہوجانا یقینی تھا ۔
پاکستان کے سب سے بڑے متنازع انتخابات کے نتیجےمیں ملک دو لخت ہوا " اُدھر تم ادِھر ہم " کے نعرے میں مشرقی پاکستان الگ ہوا تو بچے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اسلام ہمارا مذہب، سوشلزم ہمارا نظام کا نعرہ پسند آیا اور یوں 22 خاندانوں کے پاس ملک کے آدھے وسائل ہیں کا نعرہ لگا کر انڈسٹری پر قبضہ کیا جس میں اتفاق فاؤنڈری بھی شامل تھی،میاں شریف کو کاروبار محدود کرنا پڑا اپنے بیٹوں نواز شریف ، شہباز شریف اور عباس شریف کے ساتھ جہاں ئے سرے سے کام کا آغاز کیا وہین اپنے بڑے بیٹے نواز شریف کو سیاست میں لانے کا بھی فیصلہ کیا ،دولت پہلے سے تھی سیاست کے ہاتھوں ڈسے میاں شریف نے آرمی میں اپنے تعلقات کی بنیاد پر جلد نواز شریف کو سیاست کے اعلیٰ مقام پر لا کھڑا کیا،جہاں وہ پنجاب کے وزیر خزانہ سے تین مرتبہ کے وزیر اعظم بنے اُن کے بھائی شہباز شریف موجودہ وزیر اعظم اور بیٹی مریم نواز موجودہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں ۔
میں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں ؟ میں تو آج یوم مئی کے دن کی مناسبت سے لکھنا چاہتا تھا لیکن بات چلتے چلتے یہاں تک پہنچ گئی، میں تو مزدور دادے کی ملکہ پوتی مریم نواز کو بتانا چاہتا تھا کہ آج پنجاب کا مزدور بدحال اور کسان پریشان ہے ، آپ نے تو سونے کا چمچ منہ میں لیکر آنکھ کھولی ہے لیکن آپ کے والد تو آپ کو یہ شعر سناتے ہوں گے یا آپ نے دوران تعلیم پڑھا ہوگا ؎
توں قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ ؟
دنیا ہے تیری منتظرِ روزِ مکافات
سب ہمیں اس شعر کا دوسرامصرعہ ہی سناتے ہیں۔ عالمی یومِ مزدوراں پر بڑے بڑے سیمینار ، مجالس اور جلوس ،ریلیاں نکالی جائیں گی، لہک لہک کر یہ شعر پڑھا جائے گا لیکن مجھے تو آپ کی توجہ چوتھے مصرعے کی جانب مبزول کرانی ہے،آج کا مزدور اسی مصرعے کے مصداق منتظرِ مکافات ہے اور اب تو اس میں کسانوں کی آواز بھی شامل ہوگئی ہے، آپ سمجھتی توں ہوں گی کہ مکافات عمل کسے کہتے ہیں اس پر مزید لکھوں تو یہ کہ وقت کا پہیہ اگر گھوم کر مزدور کوشاہ اور اُس کی پوتی کو ملکہ بنا سکتا ہے، اگر ظلم بڑھ جائے تو اللہ کے بنائے قانون قدرت کے تحت یہ پہیہ الٹا بھی گھوم جاتا ہے ،ہم سے پہلے بھی کئی امتیں صرف اسی لیے برباد ہوگئیں کہ انہوں نے غریب کو صدا کے لیے غریب اور خود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امیر جان لیا قارون ، فرعون و ہامون نا رہے، ہمیں بھی نہیں رہنا اس لیے مزدور کسان کے لیے سوچئے اللہ آپ کی بہتری کے لیے سوچے گا ، کسان کارڈ کی تشہیر کے لیے جو 25 کروڑ آپ خرچ کریں گی اس سے کئی کسان گھرانوں میں خوشیاں لوٹ سکتی ہیں، کئی مزدوروں کے گھروں کا چولہا جل سکتا ہے کچھ تو سوچئے ملکہ عالیہ کچھ تو ۔۔۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر