جو جج دباؤ میں آتا ہے وہ استعفیٰ دیکر گھر چلا جائے،چیف جسٹس

30 Apr, 2024 | 12:42 PM

امانت گشکوری: سپریم کورٹ میں 6ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت ہوئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سوشل میڈیا سمیت دیگر فورم سے عدلیہ پر حملے کیے جارہے ہیں،عدلیہ پر تنقید کرنے والوں کو عدلیہ کی آزادی سے کوئی لینا دینا نہیں۔معذرت کیساتھ جو جج دباؤ میں آتا ہے وہ استعفی دیکر گھر چلا جائے۔
سپریم کورٹ میں 6ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کی۔کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے بنچ سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا،سوشل میڈیا سمیت دیگر فورم سے عدلیہ پر حملے کیے جارہے ہیں،عدلیہ پر تنقید کرنے والوں کو عدلیہ کی آزادی سے کوئی لینا دینا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ماضی کا ذمہ دار نہیں جب سے حلف لیا تب سے سپریم کورٹ کے اقدامات کا ذمہ دار ہوں،سپریم کورٹ تو اپنی ذمہ داری میں ناکام ہوچکی تھی،پارلیمنٹ کا شکریہ کہ اس نے سپریم کورٹ کو بچا لیا،پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بنا کر سپریم کورٹ کا کام کر دیا۔ججز خط پر انکوائری کمیشن بنا تو سابق چیف جسٹس کیخلاف بے بنیاد الزامات لگائے گئے،کمیشن کے سربراہ سابق چیف جسٹس سربراہی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے،کوئی شک میں نہ رہے کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی آنچ آنے دیں گے۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ عدلیہ پر اندر اور باہر سے حملے نہیں ہونے چاہئیں۔اگر کوئی تجاویز ہیں تو سامنے لائیں،اب معاملہ یہ ہے کہ اس کیس میں آگے کیسے بڑھا جائے،ہم نے ہائیکورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائیکورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے،ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے،اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز پڑھ کر سنائیں،کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام دستیاب ججز کیس سنیں گے، جسٹس یحیی ٰآفریدی نے کیس میں بیٹھنے سے معذرت کی اور وجوہات بھی دیں۔

  اٹارنی جنرل صاحب یہ تجاویز نہیں چارج شیٹ ہے:جسٹس اطہر من اللہ
گزشتہ سماعت پر کہا تھا شاید فل کورٹ کیس سنے،دو ججز دستیاب نہیں تھے،دو ججز کی عدم دستیابی کے باعث فل کورٹ نہیں بن سکی، عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا،کچھ بھی ہو جائے عدلیہ کی آزادی یقینی بنائیں گے،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ تجاویز نہیں چارج شیٹ ہے، ہر ہائیکورٹ نے چارج شیٹ پیش کی ہے،کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟جی ہاں بظاہر متفقہ نظر آرہی ہیں،اس کا مطلب ہے کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔

 جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ آج سنہری موقع ہے عدلیہ پر دباؤ اور مداخلت کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جائے،ہائیکورٹ خود کارروائی کر سکتی تھی مگر نہیں کی،سپریم کورٹ اس معاملے پرطریقہ کار واضح کرتی ہے تو عدلیہ مضبوط ہوگی۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ سارا معاملہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے،جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ عدلیہ میں مداخلت کے سامنے آگ کی دیوار کھڑی کرنا ہوگی،ہمیں بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا کیا؟ جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ ہمارے ملک میں سچ بولنا بہت مشکل کام ہے،یہاں ججز کے ذاتی معاملات کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے، ججوں کا ڈیٹا چوری کیا جاتا ہے،ججز کے اہل خانہ کیخلاف مہم چلائی جاتی ہے۔

  آج کے دور میں جو ہورہا ہے اس کو روکنا ہوگا:جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ آج کے دور میں جو ہورہا ہے اس کو روکنا ہوگا،کوئی شخص آزادی سے اپنا موبائل بھی استعمال نہیں کر سکتا،کبھی کہا جاتا اس جگہ نہ بیٹھو کبھی ججز کو موبائل کے استعمال سے روک دیا جاتا ہے،اگر کوئی شخص آزادی سے بات ہی نہیں کر سکتا تو یہ کیا ہورہا ہے؟

 جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ2018 میں ہم پر تنقید ہوتی رہی لیکن ہم نے کبھی اس پر کچھ نہیں کہا،ججز کا ڈیٹا لیک ہو تو یہ درست نہیں،جج کو یہ کہنا کہ تمہارا بچہ یہاں پڑھتا ہے یہ صرف ایگزیکٹو کر سکتی ہے،جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ بنچ کے 2ممبران کو ٹارگٹ کیا گیا،فیصلہ ایک جج نہیں10 ججز دیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آج اس ایشو کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا،جسٹس مسرت حلالی نے کہا ہے کہ جو تجاویز دی گئیں ہائیکورٹس خود عمل کیوں نہیں کرتیں۔

 
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ مسائل اندرونی ہوں یا بیرونی آج موقع ہے حل کریں، ہائیکورٹس کے پاس تمام اختیارات تھے توہین عدالت کا بھی اختیار تھا،ایک نظام بنانا ہے اور ملک کی ہر عدالت کو مضبوط کرنا ہے،ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے جو خط لکھا ہے بڑی جرات دکھائی ہے،بلوچستان کی عدلیہ نے اس معاملے پر جواب نہیں بھیجا،جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ ججز پر دباؤ ڈالا جاتا ہے،عدلیہ پر دباؤ ڈال کر مرضی کے فیصلے لیے جاتے ہیں،جسٹس بابر ستار کیخلاف کچھ دنوں سے جو کچھ ہورہا وہ اچھا نہیں،قیام پاکستان سے کہا جاتا ہے کہ عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ملی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ معذرت کیساتھ جو جج دباؤ میں آتا ہے وہ استعفی دیکر گھر چلا جائے،میں پانچ سال ایک ماہ بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا،مجھے پتہ ہے کہ کتنی مداخلت ہوتی ہے، زیادہ تر سپریم کورٹ سے مداخلت ہوتی ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ میرے پورے کیریئر میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوئی،جسٹس مسرت ہلالی بولے کہ جو دباؤ برداشت نہیں کر سکتے ان کو جج کی کرسی پر بیٹھنے کا حق نہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا کبھی مداخلت نہیں ہوئی،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ یہ کیسی ریاست ہے جہاں فون سننا بھی آسان نہیں،فون سنتے ہوئے بھی خوف ہوتا کہ کہیں ٹیپ تو نہیں ہو رہا، فون پر بات کرنے کیلئے محفوظ مقام ڈھونڈنا پڑتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے بھی کہا گیا تھا کہ فون پر بات نہ کریں ریکارڈ ہوجائے گی،میں نے کہا میری بات ریکارڈ ہوجائے ، اچھا ہے ویسے کی ویسے پہنچ جائے،اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے مختلف تجاویز بھجوائی ہیں،ہائیکورٹ کی تجاویز میں ہے کہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو عدالت میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔

 ایجنسیاں ایگزیکٹو کے ماتحت ہیں،پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت نہیں:جسٹس اطہر من اللہ

 جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ایجنسیاں ایگزیکٹو کے ماتحت ہیں،پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت نہیں،وزیر اعظم اپنے ماتحت اداروں کو احکامات جاری کر سکتے ہیں،ہمیں افواج پاکستان کا امیج بھی برقرار رکھنا چاہیے،ہماری فوج ہماری سرحدوں کی محافظ ہے،افواج کا امیج برقرار رکھنا بھی ہمارے لیے بہت اہم ہے، افواج پاکستان اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قربانیاں دی ہیں،قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تحفظ بھی بنیادی حقوق سے جڑا ہے۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ بیوروکریسی کو بھی فون آتے ہیں اور کچھ لوگ کام کر دیتے ہیں،کچھ بیوروکریٹ فون پر کام نہیں کرتے اور جو نہیں کرتے او ایس ڈی بنا دیئے جاتے ہیں،جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ پریشر کبھی بھی نہیں ہوگا اگر عدلیہ اپنے دروازے نہ کھولے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو دروازے کھولتے ہیں ان کیخلاف مس کنڈکٹ کا کیس ہونا چاہیے،سب ججز چیف جسٹس پاکستان کی طرح جرات مند نہیں،کچھ ججز میرے جیسے بھی ہوتے ہیں۔

 جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب کوئی جج سچ بولتا ہے اس کیخلاف بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے،جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا اتنا بڑا فیصلہ آیا حکومت نے اس پر کیا کیا،

 اٹارنی جنرل جواب دیا کہ شوکت عزیز صدیقی کیس میں کئی سابق ججز بھی ملوث ہیں، جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ جو بھی ملوث ہو اگر سابق چیف جسٹس بھی ملوث ہو ان کیخلاف بھی ایکشن لیں،جب کوئی جج سچ بولتا ہے تو اس کیخلاف ریفرنس بھی دائر ہو جاتے ہیں۔

 جسٹس نعیم اختر افغان کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ

 چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ ججز کیخلاف ریفرنس ہمارے پاس ہی آتے ہیں،ہمارے پاس میکانزم ہے ہمیں اپنی اتنی بری تصویر پیش نہیں کرنی چاہیے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دئیے کہ ملک میں تین ایجنسیاں ہیں، آئی بی،آئی ایس آئی اور ایم آئی کس قانون کے تحت بنیں،ہمیں آئندہ سماعت پر ان ایجنسیوں کے قانون بتائیے گا، بتایا جائے یہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں۔
 چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ پڑھیں یہ ایک سادہ نوٹ نہیں،جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ یہ ان کا نکتہ نظر ہے جس کا احترام ہے،ہائیکورٹس کہہ رہی ہیں ہم سپریم کورٹ کو دیکھ رہے ہیں کچھ کریں۔چیف جسٹس بولے کہ سب ہائیکورٹس نہیں کہہ رہیں،ہائیکورٹس میں سپریم کورٹ سے مداخلت نہیں ہونی چاہیے، جسٹس اطہر من اللہ نے جواب دیا کہ جب سپریم کورٹ سے ان ڈائریکٹ پیغام چلا جائے تو مسئلہ ہو جاتا ہے،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہائیکورٹس کی تجاویز سپریم جوڈیشل کونسل سے متعلقہ بھی ہیں،سپریم جوڈیشل کونسل ایک الگ آزاد ادارہ ہے،سپریم جوڈیشل کونسل ہمارے خلاف بھی کاروائی کر سکتا ہے،جوڈیشل کونسل میں پانچ ممبران ہیں اکیلا چیف جسٹس نہیں ہوتا،جو تجاویز جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں ہیں وہ سپریم کورٹ نہیں دیکھ سکتی،جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ جسٹس بابر ستار نے صرف آہ کی تھوڑی سی شکایت کی تو ان کو بدنام کیا جارہا ،سمجھ نہیں آتی لوگ پارٹی کیوں بن جاتے ہیں؟بدقسمتی سے ملک میں ہر شخص نے اپنی جماعت چن رکھی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ججز کے خط پر حکومت سمیت متعلقہ اداروں سے جواب لینا چاہیے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایجنسیوں کو بیانات حلفی دینے چاہئیں کہ ان کی طرف سے مداخلت نہیں ہوتی،چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے گا تو میں تو کہوں گا کہ مداخلت ہوئی ،ہمیں مستقبل کا دیکھنا ہے،حکومت سے جواب لے لیتے ہیں۔

 ججز خط پر از خود نوٹس کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی

 اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ججز خط پر تحریری جوابات دے دیتے ہیں،چیف جسٹس پھر بولے کہ جن لوگوں نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں خود اس پر فیصلہ کر لیں،سب فریقین کو سننا مشکل ہوجائے گا،تمام فریقین تحریری معروضات دے دیں،کسی کو بولنے سے روک نہیں رہے مگر تمام فریقین کو سننا ممکن نہیں ہوگا،کوئی اس عدالت میں ایسا ہو جو عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتا تو بتا دے،ہم سب کمرہ عدالت میں بیٹھے لوگ عدلیہ کی آزادی چاہتے ہیں،ہم اس معاملے کو جلد ختم کرنا چاہتے ہیں،اٹارنی جنرل بولے کہ تصدیق کی ہے ججز کے مس کنڈکٹ کی بات پریس کانفرنس میں نہیں ہوئی،چیف جسٹس نے پھر ریمارکس دئیے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار سے تجاویز مانگ لیتے ہیں،کوئی اور فریق رائے دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ 
وکیل لاہور ہائیکورٹ بار حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کو فل کورٹ تشکیل دینی چاہیے،اعتزاز احسن بولے کہ مجھے اس 6 رکنی لارجر بنچ پر اعتراض نہیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سماعت 7 مئی ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر رہے ،ججز خط پر از خود نوٹس کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی کردی گئی ۔
 

مزیدخبریں