ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مختار حسین کی موت کی وجہ پولیس تشدد، مجسٹریٹ انکوائری نہیں چاہئے، لواحقین کا مطالبہ

City42, Lahore, Audio Leakes, Indian Journalists, India Protest,Occupied Kashmir, Kashmir, Punch, Rajori, Army, India,Sri Nagarr
کیپشن: Representative image of security forces in Occupied J&K.
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: مقبوضہ کشمیر کے ضلع پونچھ میں ریاستی پولیس کے بہیمانہ تشدد کے بعد اپنے اہل خانہ اور پڑوسیوں کو مزید تشدد سے بچانے کے لئے کیڑے مار دوا کھا کر فوت ہونے والےشہری مختار حسین شاہ کے لواحقین نے اس کی موت  کی مجسسٹریٹ سے تحقیقات کو حقائق چھپانے کی ریاستی کوشش قررار دیتے ہوئے  مسترد کر دیا۔ انہوں نے واقعہ کی عدالتی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مقبوضہ پونچھ کےگائوں نار کے رہائشی 48 سالہ مختار حسین شاہ بدھ کے روز پراسرار حالات میں فوت ہو گئے تھے، ریاستی پولیس پونچھ میں 20 اپریل کو فوجی گاڑی پر حملہ میں5 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے مختار حسین شاہ کے پیچھے تھی اور انہیں اس حملہ میں ملوث قرار دینے کی کوشش کر رہی تھی۔پھر انہیں اٹھا لیا گیا یا تھانہ بلا لیا گیا، ان پر تشدد کیا گیا اور جب وہ تشدد سے فوت ہو گئے تو ان کی موت کو خودکشی قرار دینے کے لئے تمام حقائق  کو توڑ مروڑ کر میڈیا میں شائع اورر نشر کروایا گیا۔

مختار حسین شاہ کی وفات کے بعد پونچھ میں  شہریوں نے احتجاج شروع کر دیا اور ریاست کے تمام اداروں  اور ان کے زیر اثر میڈیا  نے حقائق کو مسخ کرنا شروع کر دیا۔

سری نگر سے دی وائر کی رپورٹ کے مطابق مختار حسین شاہ کے بھائی رفاقت حسین شاہ نے بتایا کہ مختار حسین کی میت کی پشت اور ٹانگوں پر شدید تشدد سے سیاہ نشانات پڑے ہوئے تھے۔ انہیں حراست کے دوران تشدد  کیا گیا۔

آزاد صحافیوں نے مختار حسین شاہ پر عائد الزامات اور ان کی وفات کے متعلق سوالات کے جواب حاصل کرنے کے لئے پونچھ کے ایس ایس پی روہیت بسکوترا سے فون پر رابطہ کیا تو انہوں  نے کالز کاٹ دیں، بات نہیں کی۔ پونچھ کے ڈپٹی کمشنر اندر جیت سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں  آتا اور یوں بھی ان کا ضلع پونچھ سے تبادلہ کر دیا گیا ہے۔

مختار کے بھائی رفاقت نے صحافیوں کو بتایا کہ جس پولیس اسٹوری کو حقائق بنا کر مجسٹریٹ کو اس کی بنیاد پر تحقیقات کرنے کے لئے کہا گیا ہے وہ سراسر جھوٹ ہے۔ انکوائری آرڈر میں لکھی یہ بات سفید جھوٹ ہے کہ مختار حسین نےمنگل 25 اپریل کو گھر میں  زہر کھا کر خودکشی کی۔ رفاقت حسین نے بتایا کہ انہیں بدھ 26 اپریل کو اطلاع ملی تھی کہ مختار سڑک پر بے ہوش پڑے ہیں۔ہم وہاں پہنچ کر انہیں منڈھیر کے ہسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے ہمیں اسی روز ڈسٹرکٹ ہسپتال راجوری بھیج دیا  جہاں 27 اپریل کو مختار حسین  فوت ہو گئے۔

رفاقت نے بتایا کہ راجوری میں فوج کی گاڑی پر حملہ کے روز 20 اپریل کو ہی  ان کے بھائی کو پولیس کی جانب سے فون کال آ گئی تھی، دوسرے روز 21 اپریل کو وہ  تھانہ پیش ہو گئے، انہیں تین روز تک حراست میں رکھا گیا جس کی وجہ سے گھر والوں نے عید بھی نہیں منائی۔انکوائری آرڈر میں یہ جھوٹ لکھا ہے کہ وہ گھر کے حالات کی وجہ سے پریشان تھے۔

مختار حسین کی پولیس اور ریاستی اداروں کے تشدد سے فوت ہونے کی سب سے بڑی گواہی خود ان کی وہ وڈیو ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ان پر اورر ان کے گھر والوں پر بری طرح تشدد کیا گیا ہے۔ یہ وڈیو ان کی وفات سے پہلے ان کے فون پر ریکارڈ ہوئی۔ 9 منٹ 48 سیکنڈ کی اس وڈیو میں مختار حسین نڈھال حالت میں رک رک کر بات کر رہے تھے اور وڈیو کسی دوسرے شخس نے ریکارڈ کی۔