مال روڈ (درنایاب) لاہوررنگ روڈ سدرن لوپ تھری کی تعمیرکا معاملہ، رنگ روڈ اتھارٹی نے تعمیراتی معاہدے پر باضابطہ دستخط کی تقریب کے لئے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سے وقت مانگ لیا۔
محدود نوعیت کی تقریب میں رنگ روڈ اتھارٹی کے افسران اوراین ایل سی کے نمائندے موجود ہوں گے، این ایل سی نے پی پی پی موڈ کے تحت سدرن لوپ تھری کی تعمیرکی پیشکش دی تھی، تعمیراتی معاہدے کا معاملہ فروری سے التوا کا شکار ہے۔
اس سے قبل بھی رنگ روڈ اتھارٹی نے وزیراعلٰی پنجاب سردار عثمان بزدار سے معاہدے پر دستخط کے لئے وقت مانگا تھا، اڈا پلاٹ سے ملتان روڈ تک8 کلو میٹرطویل ایس ایل تھری پر10 ارب سے زائد کی لاگت آئے گی۔ این ایل سی اپنی لاگت پر منصوبہ ایک سال میں مکمل ہوگا جبکہ ٹول ٹیکس کے ذریعے لاگت آئندہ 25 سالوں میں وصول کرے گا۔
رنگ روڈ سدرن لوپ تھری کی بڈ جنوری میں فائنل کی گئی تھی، این ایل سی کو پی پی پی پراجیکٹ کے تحت معاہدہ فائنل کیا گیا،ذرائع کے مطابق رنگ روڈ کےمعاہدے پرعملدرآمد کی تاریخ بائیس فروری مقرر کی گئی تھی، رنگ روڈ اتھارٹی حکام نے معاہدے پر دستخط کی تقریب کےلیے وزیراعلی سے وقت مانگا تھا۔
وزیراعلیٰ کی مصروفیت کی بنا پر بائیس فروری سے قبل تعمیراتی معاہدہ پر دستخط نہ ہوسکے, ذرائع کے مطابق لاہور رنگ روڈ اتھارٹی نے معاہدے پر دستخط کے لیےایوان وزیراعلی سے دوبارہ رابطہ کرلیاہے۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ کو لاہور رنگ روڈ اتھارٹی آفس کمپلیکس اور کنٹرول روم کے بارے میں بھی بریف کیا گیا تھا، وزیراعلیٰ کو بتایا گیا تھا کہ لاہور رنگ روڈ سدرن لوپ وَن اور ٹو ایک سال میں مکمل کیا گیا ہے۔ 23کلومیٹر طویل سدرن لوپ ون اور ٹو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت مکمل کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے سدرن لوپ تھری کے منصوبے کی اصولی منظوری دی تھی اور کہا تھا کہ 8کلومیٹر طویل سدرن لوپ تھری کا منصوبہ اڈہ پلاٹ سے ملتان روڈ تک تعمیر کیا جائے گا۔
سدرن لوپ تھری پر تقریباً 10 ارب روپے لاگت آئے گی۔یہ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت مکمل کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے منصوبے کو ایک سال میں مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ رنگ روڈ کے اردگرد 10 لاکھ درخت لگائے جائیں گے۔ لاہور رنگ روڈ اتھارٹی کے کنٹرول روم کو سیف سٹی پراجیکٹ کے ساتھ لنک کیا جائے۔ صوبائی وزراء میاں محمودالرشید، آصف نکئی، ہاشم ڈوگر، رکن پنجاب اسمبلی ملک اسد، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، سیکرٹری اطلاعات، سیکرٹری سروسز، سی سی پی او لاہور اور متعلقہ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔