سٹی42: مقامی باشندوں اور نیوز آؤٹ لیٹس نے سویڈن کی موجوان کلائمیٹ ایکٹیوسٹ کے خلاف کردستان ورکرز پارٹی کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہوئے ان کی ترکی میں موجودگی پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔
گریٹا تھنبرگ کچھ روز پہلے ترکی کے دورے پر آئیں۔ انہوں نے ترکی میں کرد آبادی کی زبوں حالی اور ان کے علاقہ میں ماحول کی زیادہ بربادی کے متعلق ایک پوسٹ اپنے انسٹاگرام پر لکھی جس پر ترکی کا مقامی میڈیا اور پبلک کے بعض گروپوں نے گریٹا پر تنقید شروع کر دی اور ان پر کردستان ورکرز پارٹی کی پشت پناہی کا لیبل بھی لگا دیا
ترک حکام نے بھی اس نوجوان ماحولیاتی کارکن پر کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کی پشت پناہی کا الزام لگایا، جسے ترکی میں دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاتا ہے۔
اس ہفتے، دیار باقر کے علاقے کے دورے کے بعد، تھنبرگ نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ترکی کے کرد آبادی والے علاقہ کے متعلق ایک طویل تنقید پوسٹ کی۔ اس نے کردوں کی بہت زیادہ آبادی والے علاقوں میں ماحول کے نقصان پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: "فطرت کی تباہی اور استحصال - جیسے جنگلات کی غیر قانونی کٹائی، کان کنی کمپنیوں کے لیے زونز کی قربانی اور آگ لگنے کے واقعات- ان بہت سے آلات میں سے ایک ہیں جو کردوں کے خلاف مسلسل حملوں کے حصے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔
گریٹا تھنبرگ کی جن باتوں نے دراصل ترک حکام کو غصہ دلایا وہ یہ مطالبہ ہے کہ ترکی کردوں کے ساتھ اپنا سلوک بدلے۔ بے باکی سے سیدھی بات کرنے کے لئے بیک وقت بدنام اور پسند کی جانے والی اس ایکٹیوسٹ نے تو سیدھے سبھاؤ ترکی کو وہ مشورہ دے دیا جو ترکیہ کی ناقد حکومتوں کے سیانے سیاستدان بھی دینے سے گھبراتے ہیں، تھنبرگ نے کہا، "ترکی کو کردوں اور دیگر اقلیتی گروہوں کے بارے میں اپنا موقف واضح کرنا چاہیے اور آئین میں ان کے حقوق کو شامل کرنا چاہیے۔ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے 'دہشت گردی' کو بہانے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
تھنبرگ نے اپنے تنقید بھرے نوٹ مین مزید لکھا، "بین الاقوامی تنظیموں جیسے ECHR، UN، اور Amnesty نے اس کی مذمت کی ہے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک پائیدار امن اور منصفانہ مستقبل کے لیے، کردوں کی آزادی اور خودمختاری کے حق کا احترام کیا جانا چاہیے اور کردستان کے خلاف پرتشدد حملوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔‘‘
مقامی اخبار ڈیلی صباح کے مطابق تھنبرگ کے دورے اور سوشل میڈیا پر ان کی تفصیلی پوسٹ کو ترکی میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے کچھ ہی عرصہ ہوا کہ ترک عوام نے "اسرائیلی جارحیت" کے خلاف فلسطینیوں کی حمایت ک کرنے پر گریٹا تھنبرگ کی تعریف کی تھی، تھنبرگ نے دیار باقر کو، جس کا وہ دورہ کیا تھا، "شمالی کردستان" کا حصہ قرار دیا۔ ترک میڈیا نے اس بات کو نوٹ کیا اور اچھالا کہ یہ "شمالی کردستان" والی اصطلاح تو PKK استعمال کرتی ہے۔ ترکیہ کی حکومت اور میڈیا کردستان کے اس علاقہ کو جنوب مشرقی ترکی ککہتے ہیں۔
تھنبرگ کے ان ریمارکس پر سوشل میڈیا پر سخت تنقید ہوئی۔ "دوبارہ یہاں مت آنا،" ایک ترک صارف نے لکھا، جب کہ دیگر نے PKK کی جانب سے شہریوں اور بچوں کے قتل سمیت مبینہ جرائم کی رپورٹیں شیئر کیں جس کا مقصد غالباً یہ جتلانا تھا کہ گریتا تھنبرگ جن مسائل کا ذمہ دار ترکی کو قرار دے رہی ہیں ان کے ذمہ دار کرد خود ہیں۔
ترک کالم نگار نیدیم سینر نے بھی حریت کے لیے ایک کالم میں تھنبرگ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا: "شاید تھنبرگ اس حقیقت کو بھول گئی ہیں یا نظر انداز کر رہی ہیں کہ PKK سنہ 1986 میں سویڈن کے وزیر اعظم اولوف پالمے کے قتل کی ذمہ دار تھی - یا شاید یہ اسٹاک ہوم سنڈرو م اپنی حقیقی شکل میں دکھائی دے رہا ہے۔"
یہ سحیح ہے کہ کردوں کی ترکی سے ا ازادی کی دعویدار بائیں بازو کی تنظیم PKK کو ابتدائی طور پر پالمے کے قتل میں مشتبہ سمجھا جاتا تھا، لیکن بعد میں اس تھیوری کو ترک کر دیا گیا کر دیا گیا۔ پالمے کے تقریباً اندھے قتل کے مقدمہ میں سزا یافتہ واحد شخص، کرسٹر پیٹرسن، ایک شرابی اور منشیات کا عادی تھا،اس کو بھی پولیس کی جانب سے اس کے خلاف کوئی تکنیکی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اپیل پر بری کر دیا گیا تھا۔
ترک میڈیا اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ترکیہ کے نیشنلسٹوں کی گریتا تھنبرگ پر تنقید اس کے لئے پریشان کن تو ہو گی لیکن زیادہ نہیں کیونکہ تنقید کرتے چلے جانا اور تنقیک نا شنانہ بنتے چلے جانا اس کی زندگی کا ایک تلازمہ ہے۔