کہاوت ہے " کھانا مانگنے آئی تے گھر والی بن کر بیٹھ گئی " اس کہاوت کا مطلب ہے کہ کوئی آپ سے پناہ یا کھانا یوں کہہ لیں مدد لینے آیا اور گھر پر ہی قبضہ کرلے، اس کہاوت کی عملی شکل دیکھنی ہے تو خیبر پختونخواہ میں دیکھی جاسکتی ہے، بشریٰ بی بی یہاں پناہ لینے گئی تھیں لیکن اب وہ عملاً صوبے کو چلانا چاہتی ہیں، میں نے کل جو لکھا تھا اُس کی عملی شکل آپ نے دیکھ لی کہ 36 گھنٹے کے بعد اچانک بشریٰ بی بی سامنے آئیں اور پھر آؤ دیکھا نا تاؤ اپنی لفظی بندوق نکالی اور ڈز ڈز کردیا، مبینہ طور پر کسی کو بے غیرت کسی کو بے شرم کسی کو بزدل اور کسی کو غدار کے القبات سنائے۔ سب کو پارٹی سے نکالنے کی دھمکی بھی لگادی! کوئی بی بی کرتا رہا کسی نے استعفیٰ دیا اور کسی نے کمرے سے چلے جانے میں ہی جاں بخشی سمجھی۔ ایک شخصیت عاطف خان تھے جو صرف زیر لب مسکراتے رہے لیکن ایک آواز اس ہنگامے میں جہاں کوئی بی بی کے سامنے نہیں بول رہا تھا، وہاں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ نے کچھ غیرت دکھائی اور پنکی پیرنی کو خاموش کرانے کے لیے سخت الٖفاظ استعمال کیے اور یہاں تک کہہ دیا کہ " ہم عمران خان کے علاوہ کسی کولیڈر نہیں مانتے " یہ دراصل وہ ردعمل ہے جس کی توقع بشریٰ بی بی نہیں کر رہی تھیں وہ تو اُس گنڈا پور کو جانتی تھیں جو ایم پی اے بنا تو صوفے پر نہیں دو زانوں نیچے بیٹھا کرتا تھا وہ اُس گنڈا پور کو جانتی تھیں جو عمران خان کی طرح پنکی پیرنی کو مُرشد کے نام سے پکارا کرتا تھا ، یہ وہ گنڈا پور تھا جس نے ایک بار نہیں تین بار وفاق سے ٹکر لی ، جس نے صوبے سے زیادہ پارٹی کے مفادات کو مدنظر رکھا وہاں وہاں سے فنڈنگ کرائی کہ جہاں سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن کبھی کبھار کچھ پی پلا کر (شہد) یہ گنڈا پورایسی باتیں کرجاتی ہیں جو آلات خفیہ میں محفوظ کر لیے جاتے ہیں ۔
جی ہاں اصل کہانی دھرنے کی ناکامی نہیں اصل کہانی ایک مبینہ آڈیو ٹیپ ہے جو بشریٰ بی بی کو پشاور سے نکلتے ہی سنوا دی گئی ،اس آڈیو ٹیپ میں وہی کہاوت جس کا شروع میں ذکر کیا تھا " کھانا مانگنے آئی تے گھر والی بن کر بیٹھ گئی " اسے اگر پشتو میں بیان کریں تو اس کا ترجمہ ہوگا
"هغه د خواړو غوښتنه کولو ته راغله او د کور میرمنې په توګه ناسته وه."
سنوائی گئی ٹیپ میں صرف یہ ایک جملہ یا اس کا مفہوم نہیں تھا، یہ بھی تھا کہ "خان کی پارٹی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، فنڈنگ عاطف خان کر رہا ہے جو بدلہ لینا چاہتا ہے لیکن یہ کامیاب نہیں ہوں گے آج خیبر پختونخوا کی چھتری ہٹے تو پنجاب سے بی بی دو بندے نہیں نکال سکتی " ۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے برے دن چل رہے ہیں، اسی لیے تو اب ایک کے بعد ایک مصیبت اُن کے سامنے آرہی ہے عاطف خان اکیلے کیا کم تھے جو اب بی بی بشریٰ بھی اسی کے پلڑے میں جا بیٹھی ہے، عاطف خان نے اگلے وزیر اعلیٰ بننے کے لیے لابنگ کا آغاز کردیا ہے، ممبران کی خرید و فروخت اور خان کا نام ایک جانب اور وزیر اعلیٰ علی امین دوسرے پلڑے میں ہوگا، کور کمیٹی کا اجلاس عمران خان کو رہا کرانے کے لیے نہیں بلکہ بوڑھے ہوتے قید میں بند شیر کی بوٹیاں نوچنے والوں کا اجلاس تھا جس میں سے کوئی ایک بھی، جی ہاں کوئی ایک بھی یہ نہیں چاہتا کہ عمران خان باہر آئے اور جو مظلومیت کا سودا وہ بیچ کر خیبر پختونخواہ سمیت پورے ملک میں تمام افراد کو مبینہ بیوقوف بنارہے ہیں وہ سلسلہ بند ہو ، بھیڑیوں کی فطرت ہوتی ہے کہ جب کوئی بھیڑیا بیمار و لاغر ہوجائے تو بھوک کے دنوں میں تمام بھیڑے ایک سرکل میں بیٹھ کر غراتے ہیں اپنی زبان میں بے شرم ، ڈرپوک ، بے غیرت ، بیوقوف جیسے القبات دیتے ہیں اور اس دوران جو بھیڑیا ذرا سی نرمی دکھائے سب اُسے شکار کرتے ہیں اور کھا جاتے ہیں ۔
آج پی ٹی آئی کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے وکیل رہنما بریسٹر گوہر ، بریسٹر سیف سلمان اکرم راجہ یہ اپنے موکل کو باہر نہیں آنے دینا چاہتے اور جو سیاسی رہنما باہر ہیں وہ بھی یہ نہیں چاہتے کہ اُن کی دکان بند ہو وہ تو فائدہ اٹھا رہے ہیں ایک آخری بات کہوں پی ٹی آئی کی جو مرکزی قیادت اس وقت جیلوں میں ہے وہی پی ٹی آئی اور عمران خان سے مخلس ہے جو باہر ہیں وہ اپنے اپنے ایجندے کو بڑھا رہے ہیں ، پنکی پیرنی ، عارف علوی ، اسد قیصر ، عاطف خان ، گنڈا پور اور بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی یہ سب اگر باہر ہیں یا جیل کا منہ دیکھ کر رہا کر دئیے گئے ہیں وہ کیوں باہر ہیں یہ ایجنڈا اُن کا ذاتی ہے یا کسی اور کا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں جواب مل جائے گا ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر