سیاست بمقابلہ صحت،نقصان کس کا ہورہا ہے؟

29 Nov, 2020 | 03:07 PM

Azhar Thiraj

اظہر تھراج | اپوزیشن ایک پائو گوشت کیلئے پورا بیل ذبح کرنا چاہتی ہے اور حکومت اس بیل کو بچانے کیلئے پورا زور لگائے ہوئے ہے،فورس فعال ہے تو طبیب چوکس ہیں، اپوزیشن کہتی ہے جو مرضی ہوجائے ہم بیل ذبح کرکے ہی رہیں گے،حکومت اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہتی ہے تم ہاتھ لگا کر دیکھو  ہم تمھارے ساتھ کرتے کیا ہیں؟ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی میں نقصان کس کا ہورہا ہے؟  یقیناً نقصان اس بیل کو پالنے والوں کا ہورہا ہے،ان کی جانوں کو بھی خطرہ ہے،معیشت پر بھی ریڈ لائن ہے ۔

حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی میں عوام کا نقصان ہورہا ہے،جانیں بھی ان کی خطرے میں ہیں جن کے نام پر سیاست کی جارہی ہے، اپوزیشن نے کان بند کرلئے ہیں،حکومت نے آنکھیں موند لی ہیں، اپوزیشن جلسے  کرنے پر بضد ہے،لاہور یا ملتان کا جلسہ نہ ہوا تو پتا نہیں کیا ہوجائے گا؟ کہتے ہیں کہ آج کی اپوزیشن کل کی حکومت ہوتی ہے۔حکومت اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔حکومت اپوزیشن کو تسلیم کرے اور اپوزیشن حکومت کو تسلیم کرے تو معاملہ ہی حل ہوجائے۔قومی مفاد اور سیاست کے بیچ میں ضد اور انا آگئی ہے،ابھی تک حکومت اور اپوزیشن نے  ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کیا۔نیب ،اینٹی کرپشن،ایف آئی اے کو اپوزیشن کے پیچھے لگادیا گیا ہے،ایسے کام نہیں چلتا ۔حکومت کی پالیسی کی ناکامی ہے تو اپوزیشن کی بھی نااہلی ہے، اپوزیشن نے تنقید کے ساتھ متبادل پلان دینا ہوتا ہے۔حکومت اپنا کام نہیں کررہی اور اپوزیشن  اپنے فرض سے نظریں چرا رہی ہے۔

حکومت ڈیلیور کررہی ہوتی تو اپوزیشن کی جرات بھی نہ ہوتی ،حکومت عوام کی زندگیوں میں اطمینان لانے میں ناکام رہی ،حکومت نے اپنا سیاسی کیس مضبو ط بنانے کیلئے اپوزیشن کیخلاف دبائو بڑھایا،عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔حکمرانوں کے بیانات اور عمل میں تضادات ہیں۔معاشی اشاریے بہتر ہونے کی بات غیر سیاسی لوگ کررہے ہیں۔ہمارے ہر شعبے پر مخصوص لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے،عوام کو استعمال کیا جارہا ہے، عمران خان ناکام ہوگئے ہیں لیکن اعتراف نہیں کررہے ۔


یہاں اخلاقی بحران ہے،کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں،لوگ ذاتی مفاد کیلئے سیاست کرتے ہیں،عوام کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے۔جب اخلاقی بحران ختم ہوگا تو جمہوریت بھی قائم رہے گی، قانون کی حکمرانی بھی ہوگی۔جن ممالک میں جمہوریت نہیں وہاں قانون کی حکمرانی ہے،وہاں کوئی ٹریفک اشارہ نہیں توڑا جاسکتا ہے،ہم تو شخصیات کو نکالنے اور رکھنے میں الجھے رہے ہیں، پی ڈی ایم بھی عمران خان کے نام پر الجھی ہے ۔ پی ڈی ایم کے جلسوں کا ایک ہی مقصد عمران خان کی چھٹی ہے،ان کے مطابق جب عمران حکومت چلی جائے گی تو سب مسائل حل ہوجائیں گے،جمہوریت کا نعرہ لگاتے ہیں دیکھتے کہیں اور ہیں ،آج عمران خان کی حکومت کردی جاتی ہے تو ویلکم کیا جائے گا۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس تباہی مچار ہا ہے،بھارتی معیشت کسادبازاری کا شکار ہوگئی ہے،امریکی معیشت کو جھٹکا لگا ہے،یورپ پریشان ہے، ویکسین کے آنے میں دیر ہے،پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر شدید ہوتی جارہی ہے،کورونا وائرس پر جب اپوزیشن سنجیدہ تھی  تو حکومت لاپرواہ تھی ،اب حکومت سنجیدہ ہے تو اپوزیشن اس کی بات ماننے کو تیار نہیں، اپوزیشن کیلئے اس وقت اہم حکومت کو گرانا ہے عوام  اور کارکنوں کی صحت غیر اہم ہے،ن لیگ اور مولانا فضل الرحمان حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے ہر طریقہ استعمال کرنا چاہتے ہیں،پیپلز پارٹی اس میں رکاوٹ ہے،باقی حکومت اور اپوزیشن میں رابطے بھی جاری ہیں،باقی لوگوں کے بھی کسی نا کسی جگہ بات چیت ہورہی ہے۔ اپوزیشن آئینی طریقے سے تو حکومت نہیں گرا سکتی کوئی اور راستہ تلاش کررہی ہے-

ایلیٹ اپنے مفادات کیلئے عوام کو چارے کے طور پر استعمال کررہی  ہے،یہ سیاسی ایلیٹ ،سوشل ایلیٹ اور اقتصادیات کے ٹھیکیداروں کی جنگ ہے،اصل نقصان غریب آدمی کا ہورہا ہے۔غریب بچے ڈگریاں لے لیتے ہیں لیکن نوکریاں نہیں ملتیں ۔معاشی اشاریوں میں بہتری کی بات کی جاتی ہے لیکن عام آدمی پریشان ہے،سفید پوش انسان کیلئے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہوگئی ہے،آٹا ،چینی کا بحران ہے، وزرا کہتے ہیں چینی وافر ہے دکان پر جاتے ہیں تو ملتی نہیں،ابراہم لنکن کہتے تھے اتنا پھینکو جتنا لپیٹ سکو،یہ تو پھینکنے میں اعتدال نہیں برتتے۔اشیا ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔آمدن اور خرچ میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوچکا ہے۔شاید یہ خلا پر نہ ہوسکے۔

ویڈیو دیکھئے ۔۔

سوچیے اگر کورونا کی وبا کے دوران عمران خان کے بجائے نواز شریف یا یوسف رضا گیلانی وزیرِ اعظم ہوتے اور کورونا سے عوام کو بچانے کے لیے تین سو افراد سے زیادہ کے اجتماع اور جلسوں پر پابندی لگا دیتے تو کیا حزبِ اختلاف پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان عوامی مفادِ عامہ میں حکومت کے خلاف اپنی عوامی رابطہ مہم وبا کے ٹلنے تک ترک کر دیتے؟ایک فیصد امکان ہے کہ ہاں عمران خان کورونا کے سبب جلسوں جلوسوں کی سیاست وقتی طور پر حکومتِ وقت کے کہنے پر ملتوی کر دیتے مگر ننانوے فیصد امکان ہے کہ وہ آج کی پی ڈی ایم کی طرح کہتے کہ چونکہ حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں لہذا وہ کورونا کی آڑ میں ہم پر سیاسی قدغن لگانا چاہتی ہے۔گو نواز گو ۔۔۔!

سیاست اور صحت کے مقابلے میں نقصان ان کا ہورہا ہے جو ان جلسوں کو رونق بخشتے ہیں،جو ان سیاستدانوں کا چارہ بنتے ہیں،جن کیلئے جمہوریت کا نعرہ لگایا جاتا ہے،جن کیلئے منشور دیے جاتے ہیں عمل نہیں۔

مزیدخبریں