پیرول پر رہائی ۔۔۔ایک فرسودہ نظام

29 Nov, 2020 | 11:02 AM

قیصر کھوکھر

( قیصر کھوکھر) پاکستان میں پیرول پر رہائی کا ایک فرسودہ نظام چل رہاہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے فارمولے پر جو محکمہ داخلہ پنجاب تک پہنچ جاتا ہے، اسے پیرول پررہائی مل جاتی ہے، جس بے چارے کے پاس وسائل نہیں ہوتے ہیں وہ اپنے پیاروں کا منہ دیکھنے بغیر ہی رہ جاتے ہیں۔

 پنجاب حکومت نے میاں شہباز شریف اور میاں حمزہ شہباز کی رہائی کر کے ایک اچھا اقدام کیا ہے اوریہ ایک قابل ستائش اور ایک خوش آئند قدم ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ پیرول پر رہائی کا انگریز کے دور کا بنا ہوا نظام تبدیل کیا جائے اور اسے آسان اور قابل استعمال بنایا جائے تاکہ ہر کوئی عام و خاص اسے استعمال کر سکے اور یہ کہ پیرول پر رہائی کا اختیار نچلی سطح پر منتقل کیا جائے ۔ یہ اختیار محکمہ داخلہ پنجاب سے واپس لے کر جیل سپرنٹنڈنٹ کو دیا جائے اور جس حوالاتی کی بھی فوتیدگی کی صورت میں خود جیل سے ہی جیل سپرنٹنڈنٹ کو درخواست دے اور جیل سپرنٹنڈنٹ اسے شخصی یاکسی قسم کی بھی ضمانت لے کر چوبیس گھنٹے کے لئے رہا کر دے۔ پیرول پر صرف 12گھنٹے کیلئے رہائی کا قانون تبدیل کیا جانا چاہیے۔ حوالاتی یا قیدی کو جنازہ اور قل دونوں میں شرکت کی اجازت ملنا چاہئے ۔ 

پنجاب میں ایک منجھے ہوئے بیوروکریٹ طاہر خورشید نے پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعلی کا چارج سنبھال لیا ہے اور وہ ایک اچھے اور بھلے افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی خاص قربت انہیں حاصل ہے ۔اب ان کی یہ ڈیوٹی بن گئی ہے کہ پیرول پر رہائی سمیت جتنے بھی انگریز کے زمانے کے فرسودہ قوانین ہیں انہیں تبدیل کیا جائے اور انہیں موجودہ دور کے مطابق اپ گریڈ کیا جائے ۔اس میں محکمہ آبپاشی، مال، ہائوسنگ، خزانہ ، بلدیات، زراعت، لائیو سٹاک، انڈسٹریز، سکولز ایجوکیشن اور ہائر ایجوکیشن کے رولز اور قوانین کو اپ گریڈ کیا جائے اور جرمانوں اور دیگر سزائوں کو سخت کیا جائے، جیسا کہ نہری پانی کی چوری کی سزا بہت ہی کم ہے ،اسے فوری طور پر موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ تاکہ حکومتی رٹ قائم ہو سکے اور اگر کوئی ٹیکس یا ریونیو نہیں دیتا ہے تو اس کیلئے بھی قانون کو نئے سرے سے اپ گریڈ کیا جائے اور اگر کہیں ایکٹ لانے کی ضرورت ہے تو وہ لایا جائے۔ 

محکمہ بلدیات اور بلدیاتی اداروں کی رٹ کے سلسلہ میں زیادہ تر قوانین انگریز کے زمانے کے بنے ہوئے ہیں ،انہیں فوری طور پر اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ آج کا دور واٹس ایپ اور ویڈیو لنک کا دور ہے اور خاص طور پر پولیس کے قوانین کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پولیس کے ضابطہ فوجداری اور دیوانی جرائم کی سزائیں انتہائی کم ہیں اور جرمانہ کی سزا بھی بعض کیسز میں انتہائی کم ہے۔ اسے تبدیل کر کے جدید آئی ٹی دور کے مطابق ڈھالنے اور بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ میاں شہباز شریف اور میاں حمزہ شہباز کو میڈیا میں شور ہونے پر پانچ دن کی پیرول پر رہائی دی گئی ہے۔ 

لیکن کتنے ہی پاکستانی ہونگے جو بیرون ملک وفات پا جاتے ہیں اور ان کے جسد خاکی بیرون ملک سے واپس وطن پہنچتے ہیں اور ان کے پیارے جیلوں میں مختلف جرائم میں بند ہوتے ہیں۔ لیکن انہیں رہائی نہیں ملتی ہے ،کیونکہ رہائی کا12 گھنٹے سے زائد وقت کا اختیار کابینہ کے پاس ہے اور کابینہ کا اجلاس کون بلائے؟ یہ ایک مشکل اور سفارش طلب مسئلہ ہے۔ جس پر کوئی کسی کی دسترس نہیں ، لہذا پیرول پر رہائی کا قانون ضرورت کے مطابق ایسے قوانین کو تبدیل کیا جانا بہت ضروری ہے۔ اور بیرون ملک فوتیدگی کی صورت میں پیرول کے وقت کو بڑھایا جائے اور اسے آسان فہم کیا جائے اور پیرول پر رہائی کے تمام اختیار ضلع کے ڈی سی یا جیل سپرنٹنڈنٹ کو دیئے جائیں۔

یہ اختیار کسی بھی صورت ہوم سیکرٹری پنجاب کے پاس نہیں ہونا چایئے ،کیونکہ ہر کوئی ہوم سیکرٹری پنجاب تک پہنچ نہیں پاتا ہے، اور خاص طور پر راجن پور، بھکر، اٹک جہلم اور چکوال کے لوگوں کے پیرول رہائی کے احکامات حاصل کرنے تک تدفین بھی ہو جاتی ہے۔ ڈیڈ باڈی کی تدفین بھی کر دی جاتی ہے۔ محکمہ داخلہ اور محکمہ قانون کو مل کر فوری طور پرقوانین کو تبدیل کرکے انہیں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ قوانین کو عوام کی رسائی کیلئے اپ گریڈ کیا جائے۔ اس حوالے سے نئی قانون سازی بھی کی جا سکتی ہے۔

مزیدخبریں