سٹی42: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان بلا سے محروم کرنے کے فیصلے پر برطانوی تنقید کے جواب میں غیر معمولی راستہ اختیار کرتے ہوئے برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میریٹ کو خط لکھ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ "اگر کوئی سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرواتی، تو وہ انتخابی نشان کے لیے اہل نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ماضی کی غلطیوں کو درست کیا ہے برطانیہ کو اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان عموماً اپنے فیصلوں پر تنقید کئے جانے کو خاموشی سے برداشت کرتی ہے۔
24نیوز ایچ ڈی ٹی وی چینل نے بدھ کو رپورٹ کیا کہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کیس میں عدالتی فیصلے پر تنقید پر برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کو خط لکھا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے خط میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں برطانوی ہائی کمشنر کی تقریر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ برطانوی حکومت کی طرف سے دکھائی گئی دلچسپی خوش آئند ہے، پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد ضروری تھا۔
صدر اور الیکشن کمیشن میں اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات وقت پر نہیں ہو سکے، عدالت نے وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے صرف 12 دن میں مسئلہ حل کر دیا اور عام انتخابات 8 فروری 2024 کو کرائے گئے۔
پاکستان میں الیکشن لڑنے کے خواہشمند بہت سے لوگوں کو (ماضی میں) تاحیات پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ نے تاحیات نااہلی کو کالعدم قرار دے دیا کیونکہ یہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں تھا۔
سپریم کورٹ نے برطانوی ہائی کمشنر کو خط میں واضح کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد آمریت کو روکنے اور سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے ہے، اس جمہوری اصول کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے قانون میں یہ شرط رکھی گئی ہے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ "اگر کوئی سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرواتی، تو وہ انتخابی نشان کے لیے اہل نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ماضی کی غلطیوں کو درست کیا ہے برطانیہ کو اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
خط میں 1953 میں ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے اور ایک اعلان کے ذریعے اسرائیلی ریاست کے قیام کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ خط کی ایک کاپی برطانیہ کی سپریم کورٹ کے صدر اور چیف جسٹس آف انگلینڈ اینڈ ویلز کو بھیجی گئی ہے۔