سٹی ایٹ ٹین کا پروگرام شروع ہوا تو میزبان انا یوسف نے آغاز میں ہی 28 مئی کے حوالے سے گفتگو کا آغاز کیا اور بتایا کہ یوم تکبیر کیوں اہم ہے اور ساتھ وہاں بیٹھے رپورٹر وقاص اور میرا تعارف کرایا اور مجھ سے پوچھا کہ آج کا دن کیوں اہم ہے ؟میں اس پروگرام کے شروع ہونے سے پہلے ہی کچھ غصے اور جذبات میں بھرا بیٹھا تھا وجہ یہ تھی کہ کل رات سے ہی کچھ افراد پاکستانی ایٹمی دھماکوں کو لیکر سوشل میڈیا میمز اور مذاق بنارہے تھے اور اس مذاق کا نشانہ ہر وہ شخص اور ادارہ تھا جس نے اس ایٹمی دھماکے کرنے میں کوئی بھی کردار ادا کیا تھا ، سوشل میڈیائی مخلوق گویا لٹھ لیکر ان سب محسنانِ پاکستان بلکہ محسنانِ عالم اسلام کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ پیچھے چڑھ دوڑے تھے مجھے پتہ نہیں ان وطن دشمنوں کو ان دھماکوں سے کیا تکلیف تھی لیکن اُن کے اس روئیے سے مجھے بہت تکلیف تھی سو میں ان دھماکوں کا ذکر کرتے کرتے رو پڑا، آنسو چھلک پڑے لہجہ رندھ گیا ،میرے سامنے وہ بھارتی مسلمان تھے جنہیں میں ان دھماکوں کے بعد بھارت میں ملکر آیا تھا ۔
بھارت نے پوکھران کے صحرا میں " شکتی" کے نام سے 11 مئی کو دو اور 13 مئی کو 3 ایٹمی دھماکے کرکے پوری دنیا کو عمومی اور برصغیر کو خصوصی طور ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا، اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنے قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے دشمن کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا ہے۔ اب کسی جانب سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، ظاہر ہے بھارت کا دو ملکوں سے سرحدی تنازعہ ہے، پاکستان اور چین ، چائنا پہلے سے ایٹمی قوت تھا، اس لیے واجپائی کا سیدھا نشانہ پاکستان تھا ،یہ بڑے کٹھن دن تھے ایک صحافی ہونے کے ناطے ہم ان دھماکوں کی گونج اور اثرات اپنے دلوں پر محسوس کر سکتے تھے، دو رات میں نہیں سویا زیادہ وقت پریس کلب میں پریشان دوستوں سے ملاقات میں گزارا اور باقی وقت گھر میں ریڈیو سنتے اور ٹہلنے میں گزارا یوں لگتا تھا کہ اب انڈیا حملہ آور ہوگا پاکستان کا سب کچھ تہس نہس کردے گا اور اس کی صدیوں پرانی خواہش کے مسلمانوں کو غلام بنائے پوری ہوجائے گی۔ آزادی کے وقت کی قتل و غارت گری ، آبروریزی اور لوٹ مار میرے سامنے گھومتی تھی لیکن جب ایسی خبرین آنا شروع ہوئیں کہ پاکستان بھی ایٹمی دھماکے کرنے کی تیاری کر رہا ہے تو دل کو کچھ اطمینان ہوا ، نواز شریف دھماکوں پر ڈٹ گئے اور ایسا ڈٹے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں ، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کہتے ہیں کہ ہمیں وزیر اعظم نے بلایا اور پوچھا کیا تیاری کرسکتے ہو ہم نے کہا ہم تیار ہیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم دھماکے کرنے جارہے ہیں ، امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک نہیں پانچ ٹیلی فون کیے پہلے قرضوں کی معافی ، فوجی امداد اور ایف سولہ کا لالچ دیا جب بات نا بنی تو یہ بھی کہہ دیا کہ اس سے خطہ میں جنگ کے بادل منڈلائیں گے اور امریکہ کچھ نا کر پائے گا لیکن نواز شریف دٹے رہے ، اُس وقت کی سرکاری آفیسر مبشریٰ باجوہ نے بتایا کہ سعودی رائل فیملی پاکستان آئی اور یہ پہلا موقع تھا کہ آنے والے وفد میں خواتین بھی شامل تھی۔ لاہور کے گورنر ہاوس میں ملاقات کے وقت سعودی وفد کے سربراہ کا نام مجھے یاد نہیں جس نے نواز شریف کو گلے لگایا اور روتے ہوئے بار بار یہ انگریزی میں کہا " مفہوم کہ آپ کردو یہ آپ ہی کرسکتے ہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں" اور پھر ہوا بھی ایسے ہی جب امریکہ نے ایٹمی دھماکوں پر اقتصادی پابندیاں عائد کی تو سعودی عرب نے تین عرب ڈالر کا ادھار تیل اور ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد جو بعد مین آدھی معاف کرا لی گئی دے دی ۔
یہ پریشر گیم تھی ہم ایک معمولی فیصلہ کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں لیکن نواز شریف اور آرمی چیف جہانگیر کرامت نے تمام دباوؤخطرات کو نظر انداز کرکے 28 مئی کو پانچ اور 30 مئی کو چھٹا دھماکہ کردیا یہ بھارت کے پانچ رنز پر چھ رنز کی فتح تھی میں پروگرام میں کیوں رویا ؟
ان دھماکوں سے کچھ عرصے کے بعد پاک، بھارت ہاکی سیریز کا انعقاد ہونا تھا۔ لاہور سے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر اختر رسول نے دو صحافیوں، خبریں اخبار سے مجھے اور روزنامہ پاکستان سے سید علی ہاشمی کا انتخاب کیا گیا ،یہ میرا بھارت کا پہلا دورہ تھا بہت سے صحافیوں سے بات ہوئی ملاقاتیں بھی رہیں، دہلی میں میچز کور کیے ،یہاں سکھ صحافیوں نے زیادہ گرمجوشی دکھائی ایک صحافی تو ہر دفعہ ملتے ہوئے پہلے "بنئیے" جسے وہ بانیا ہندو کہتا تھا کہ بارے کہتا" ٹھوک دیا نواجے نے سواد آگیا بادشاہو " لیکن اصل صورتحال حیدر آباد سے آئے صحافی (نام نہیں لکھوں گا ) نے بتائی اس کے مطابق بھارت نے دھماکے لیے تو ہمارے ارد گرد رہنے والے ہندو اچانک بھیڑیے کا روپ دھار گئے وہ ہمیں ایسی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جیسے کھا جائیں گے ، انتہا پسند ہندو ہمارے محلوں میں جلسے کرکے اعلان کر رہے تھے کہ محمود اور شہاب الدین کے ظلموں کا بدلہ لینے کا وقت آگیا، دشمن کو ایک ہی وار میں ختم کرنے کا وقت ہے ، ہندو ترنگا لہرانے اور اشوک کا کھویا ویر چکر حاصل کرنے کا وقت ہے لیکن ان کے سب نعروں دعووں کا جواب نواز شریف نے دیکر ان کا منہ بند کردیا ہمیں بچالیا ،آپ کے دھماکوں نے ہم مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کردیا ،انہوں نے یہ کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا کہا تم اچھے رہے، پاکستان بنا کر ہم غلام ہیں، غلام اور غلامی میں زندہ لوگ مردہ ہوتے ہیں ۔
ان دھماکوں کے بعد 11فروری 1999 میں اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے اور نظم ؎
ہم جنگ نہ ہونے دیں
وشو شانتی کے ہم سادھک ہیں
جنگ نہ ہونے دیں گے
اور یوں جو پاکستان کو مٹانے کی بات کرتے تھے نواز شریف کے چھکے سے سہم کر لاہور چل کر آئے وہ بھی بس پر یہ کہنے کہ ہم جنگ نہ ہونے دیں گے ۔
پروگرام میں یہ سارا منظر میرے سامنے تھا اور میں آج رو رہا تھا اُن لوگوں پر جو نہ آزادی کی قدر رکھتے ہیں نہ ان دھماکوں کی اہمیت سے واقف ہیں، اللہ پاک ان کے اور ہم سب کے حال پر رحم فرمائیں۔ آمین
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ایڈیٹر