92 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے بعد جب عمران خان نے اپنے شاندار کرکٹ کیئرئیر کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا تو پورے ملک میں شور اٹھا جو اپنے ہیرو کو یوں جاتا دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اسی زمانے میں کراچی سے منیر حسین صاحب کی ادارت میں مقبول ترین سپورٹس میگزین ’اخبار وطن‘ نے ایک پوسٹر شائع کیا جس میں عمران خان کا ایک دلکش انداز جس میں جینز کے ساتھ تلے دار چپل پہنی کسی سبزہ زار میں شوٹ کی گئی تصویر تھی اور اس کے اوپر جلی خروف میں لکھا تھا ’کس دل سے کہیں تم کو عمران خدا حافظ‘۔
اس پوسٹر نے بڑی دھوم مچائی خود میں نے اسے فریم کرایا اور لمبے عرصے تک گھر کی دیوار پر سجائے رکھا آج کا بلاگ کا عنوان اُسی پوسٹر سے مستعار لیا ہے لیکن یہ بلاگ میرے 11 مئی کو لکھے گئے بلاگ ’پاکستان تحریک انصاف کا تاریک مستقبل‘ کا تسلسل ہے۔
اس کے بعد حالات اتنی جلدی تبدیل ہوئے کہ خود میں نے بھی اس کا تصور نہیں کیا تھا۔ سانحہ 9 مئی کے بعد جب عسکری اداروں نے ردعمل دیا اور ملک میں گرفتاریاں شروع ہوئیں تو مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ زور زبردستی پاکستان تحریک انصاف کو مزید جلاء بخشے گی مثالیں دی جانے لگیں کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے پھانسی پر چڑھایا، بے نظیر بھٹو دہشتگردی کی نظر ہوئیں، ہزاروں جیالوں نے جیل کی ہوائیں کھائیں، فوجی عدالتوں سے کوڑوں کی سزائیں ملیں، بہت سے ملک بدر ہوئے اور بہت سے ابھی بھی شاہی قلعے کی صعوبتوں کا ذکر کرتے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ پارٹی کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا لیکن ان سارے مظالم اور نا انصافیوں کے باوجود پارٹی آج بھی موجود ہے اور اسے آج بھی چاروں صوبوں میں نمائندگی حاصل ہے۔
اس کے بعد ذکر کیا جاتا ہے پاکستان مسلم لیگ ن کا کہ جسے تین مرتبہ اقتدار کے سنگھاسن سے ہٹایا گیا، لیڈر شپ مشرف مارشل لاء میں پونے دو سال قید رہنے کے بعد جلا وطن ہوئی، یہاں کارکنان پستے رہے لیکن پارٹی نہ ٹوٹی تو عمران خان کی پی ٹی آئی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ جنرل پاشا اور ظہیر السلام نے پی ٹی آئی کو سالہا سال سینچا، عمران خان کو دیوتا کا روپ دیا اور اس درخت کا پھل جنرل فیض حمید اور اُن کے دوستوں کے حصے میں اس پارٹی کو بنانے کیلئے پراجیکٹ عمران خان لانچ کیا گیا تھا۔ 2018ء انتخابات سے قبل دیکھیں تو چہار جانب نواز شریف اور زرداری کیلئے پسپائی ہی پسپائی تھی یہاں تک کے سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوئے چیف جسٹس جج ثاقب نثار اینڈ کمپنی سے عمران خان کو صادق و امین کہلوایا گیا اور باقی تمام سیاستدانوں کو چور گردانا گیا، یہ گردان اتنی طاقتور اور پُراثر تھی کہ آج بھی آپ کو اندرون اور بیرون ملک ایسے افراد ملیں گے جو اس پر کامل ایمان رکھتے ہیں لیکن جب ثبوت مانگیں جائیں تو ماسوائے سخت جملوں کے اُن کے پاس کچھ نہیں ہوتا، قصور ان کا بھی نہیں کہ انہیں تو سبق ہی ایک پڑھایا گیا ہے۔
پراجیکٹ عمران خان چند سال کا نہیں سال ہا سال کا منصوبہ تھا، جنرل باجوہ کے بعد فیض اور ثاقب نثار کے بعد پہلے عمر عظاء بندیال اور اس کے بعد کوئی اور ہم خیال یوں عمران خان کی حکومت کو 2030ء تک کیلئے طول دینا چاہتا تھا۔ اس کے بعد صدارتی نظام کا پرانا ڈھول جو ایوب خان کے دور میں ہی دفن کیا گیا تھا کو دوبارہ نکالا جانا تھا اور اسی ڈھول کی آواز میں عمران خان تاحیات کرسیِ صدارت پر بیٹھ جاتے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایک پلاننگ انسان کرتا ہے اور ایک پلان رحمٰن، تو یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا عمران خان کی جلد از جلد مکمل قوت حاصل کرنے کے لالچ نے نا صرف انہیں بلکہ اُن کے ساتھیوں کو بھی مشکل میں مبتلا کردیا۔
جنرل باجوہ کو مزید ایکسٹینشن دینے پر اپوزیشن اکھٹی ہوئی جو عمران خان کی ہٹ دھرمی اور جھوٹے چور بیانیئے کے باعث بہت زیادہ نزدیک ہوئی، جنرل باجوہ اس پراجیکٹ سے الگ ہونا چاہتے تھے لیکن وہ جاتے جاتے عمران کے دوست سمجھے جانے والے جرنیلوں کی قربانی بھی لے گئے۔ یوں دس سالہ حکمرانی کا خواب بکھر گیا، خواب ٹوٹتا دیکھ کر عمران خان نے ہر وہ حربہ آزمایا جو سیاسی سے زیادہ انتشاری تھا۔
ریلیاں جلسے جلوس، میر جعفر، غدار اور ڈرٹی ہیری جیسے بناء ثبوت کے الزامات کے ذریعے اپنے چاہنے والوں کو بیوقوف بنانے اور اُن میں اشتعال بھرنے میں کامیاب ہوئے۔ کچھ عدالتی سہولیات بھی انہیں میسر تھیں جس کے بعد انہوں نے پاکستان آرمی سے دو بدو برسرپیکار ہونے کا فیصلہ کیا، ذرائع بتاتے ہیں کہ 9 مئی صرف جنگ تھا پلان تو پرانا تھا جس کیلئے ترکیہ ماڈل کو مثال بنایا گیا تھا چند رئٹائرڈ فوجی اس پلاننگ کا حصہ تھے۔
عمران خان کی گرفتاری کو طبل جنگ کا نقطہ آغاز بنایا گیا اور ایسے ہی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے ساتھ ہی ملک بھر میں جتھے فوجی تنصیبات کی طرف بڑھے۔ پاکستان آرمی کے موجودہ سربراہ حافظ سید عاصم منیر نے کسی سویلین کو مارنے سے منع کیا کیونکہ باہر سے آنے والی اطلاعات کے مطابق ایک بھی لاش کسی بڑی خانہ جنگی کا باعث بن سکتی تھی، جسے ٹال دیا گیا۔ 9 مئی کے بعد پاکستان آرمی، وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سیاسی آپریشن رد الفساد کا آغاز کیا، گرفتاریاں ہوئیں جو جو آرمی تنصیبات کی طرف بڑھا تھا۔ اسے بلا تقسیم رنگ و نسل، مرد عورت اور غریب امیر کے پکڑ لیا گیا۔
عمران خان کا منصوبہ ناکام ہوا تو بڑے جہاز کے ڈوبنے سے پہلے جس طرح چوہے چھلانگ لگاتے ہیں یونہی سوکھے پتوں کی مانند تحریک انصاف کے نام نہاد رہنما پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرنے لگے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ عمران خان کی ذاتی انا، ضد اور خود کو دوسروں سے اعلیٰ و افضل جاننے کی روش نے انہیں آج اکیلا کردیا ہے پارٹی کے باقی بچ جانے والے رہنماء یا تو قید میں ہیں یا بغاوت کے سنگین الزامات میں قید، سیاسی مبصرین سیاست کے گہرے سمندر کے کنارے کھڑے اس بڑے سیاسی ٹائٹینک کے ڈوبنے کا نطارہ کر رہے ہیں اور میرے ذہن میں آج بھی وہ پوسٹر چبھ رہا ہے جس پر لکھا تھا ’کس دل سے کہیں تجھ کو عمران خدا حافظ‘ لیکن حقیقت یہی ہے کہ عمران خان کی سیاست اگلے دس بیس سال میں تو نظر نہیں آتی ہاں کوئی معجزہ رونما ہوجائے تو کچھ کہا نہیں جاسکتا۔