بیوروکریسی اور حالیہ الیکشن

29 Jul, 2018 | 10:34 AM

قیصر کھوکھر

(قیصر کھوکھر) پنجاب میں عام انتخابات مکمل ہو چکے ہیں اور پنجاب میں پی ٹی آئی کے حکومت بنانے کے روشن امکانات ہیں ،پنجاب کی موجودہ بیوروکریسی کا یہ خیال ہے کہ اب چونکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے جا رہی ہے اس لئے وہ اپنی موجودہ اسامیوں پر کام جاری رکھیں گے اور انہیں ٹرانسفر نہیں کیا جائے گا ۔خاص طور پر چیف سیکرٹری پنجاب اکبر حسین درانی اور آئی جی پولیس سید کلیم امام اس حوالے سے کافی پر امید ہیں ۔ مسلم لیگ نون کے اقتدار سے جانے سے پنجاب میں پہلے سے موجود ڈی ایم جی (نون) اب ختم ہو جائے گی اور افسر شاہی کی ایک نئی شکل سامنے آئے گی، جسے ڈی ایم جی (بیٹ) کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔

سیاستدانوں کی طرح اب افسر شاہی بھی اپنا رنگ بدلے گی اور نئے سسٹم میں اپنے آپ کو ڈھال لے گی۔ لیکن اس ساری صورتحال میں اب بھی کئی افسران مسلم لیگ نون کی طرف دیکھ رہے ہیں اور یہ توقع کر رہے ہیں کہ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت بن جائے گی اور وہ دوبارہ پنجاب کی افسر شاہی کے مزے لیں گے۔ میں تو صرف یہ کہوں گا کہ ہر شہری کو اب عوام کے مینڈیٹ کا حترام کرنا چاہئے اور جو کچھ سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر پی ٹی آئی اور عمران خان نے عوام کے ساتھ جو بھی وعدے کئے ہیں وہ اب پورے کئے جائیں۔ تاکہ نیا پاکستان ہم بھی دیکھ سکیں کہ کیسا ہوگا۔ لیکن ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے کہ عوام کے ساتھ رابطہ کیسے رکھا جائے۔

حکمرانوں کے عوام کے ساتھ رابطہ ان کی سرکاری مشینری سے سب سے زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ ہر شہری کو کسی نہ کسی شکل میں سرکاری دفاتر جانا پڑتا ہے۔ پولیس ، تھانہ، کچہری، محکمہ مال، محکمہ تعلیم کے کاموں کے سلسلہ میں ہر کسی کو روزانہ کی بنیاد پر رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے پی ٹی آئی کی یہ اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ افسرشاہی میں فوری طور پر اصلاحات نافذ کی جائیں اور اس افسر شاہی کو عوام دوست بنایا جائے اور اوپن ڈور پالیسی کو اپنایا جائے اور ہر شہری کو تحصیل دفاتر سے لے کر پنجاب سول سیکرٹریٹ اور تھانہ سے لے کر آئی جی آفس تک رسائی دی جائے اور سائلین کے تمام دفاتر میں انتظار گاہیں اور بیٹھنے کے لئے جگہیں بنائی جائیں۔ افسر شاہی میں روایتی قسم کانظام بدلا جائے اور نیا پاکستان کے ساتھ ساتھ نیا افسر شاہی نظام بھی دیا جائے تاکہ ہر شہری کے ساتھ انصاف ہو سکے ۔ پی ٹی آئی اقتدار میں آ کر روایتی قسم کی اکھاڑ بچھاڑ نہ کرے جس سے پسند اور نا پسند کا تاثر پیدا ہو۔ اور ساتھ ساتھ افسر شاہی کو ڈی ایم جی( نون) اور ڈی ایم جی (بیٹ) میں بھی تقسیم نہ کیا جائے ۔

اس بیوروکریسی کو ایک پیشہ ور بیوروکریسی بنایا جائے جو حکومت وقت کو ان پٹ دے اور عوام دوست پالیسیاں بنانے میں حکمرانوں کی مدد کرے۔ بیوروکریسی کی اکھاڑ بچھاڑ بھی صرف اور صرف میرٹ پر کی جائے اور اداروں کو مضبوط کیا جائے۔ گورینس کو بہتر کیا جائے، اور محکموں اور وزارتوں میں ورکنگ ماحول بہتر کیا جائے۔ سرکاری اداروں اور نوکر شاہی کی اکھاڑ بچھاڑ میں ہر قسم کی سیاسی مداخلت بند کی جائے۔ ایوان وزیر اعلی سے ایس ایچ او اورتحصیلداروں اور ڈی پی او اور ڈی سی کے تبادلوں کے لئے استعمال نہ کیا جائے اور اداروں کے سربراہان اور چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو ٹرانسفر پوسٹنگ اور دیگر فیصلوں میں فری ہینڈ دیا جائے۔ وزیر اعلی اور وزیر اعظم صرف اداروں کے ہیڈ کو پوچھیں اور باقی تمام ذمہ داری محکموں اور وزارتوں کے سربراہان کی ہو۔ ہر کسی افسرکی تعیناتی کا دورانیہ مکمل کیا جائے کسی بھی افسر کو اپنی تعیناتی کا دورانیہ مکمل ہونے سے قبل ٹرانسفر نہ کیا جائے اور اگر کسی کو ٹرانسفر کرنا مقصودبھی ہو تو اس کی وجہ دریافت کی جائے اور اس وجہ کی الگ سے انکوائری کرائی جائے۔ ہر افسر کی کارکردگی جانچنے کا الگ سے ایک نظام وضح کیا جائے ۔ بیوروکریسی کی اصلاحات کے لئے اگر قانون سازی کی ضرورت ہو تو وہ بھی کی جائے ۔

پولیس پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لئے ضلع اور ڈویژن کی سطح پر عوامی کمیٹیاں بنائی جائیں۔ مالی معاملات بہتر کرنے اور ریونیو کی وصولی کا ایک موثر نظام بنایا جائے اور ہر شہری کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے اقدامات کےئے جائیں۔ جب ادارے مضبوط ہونگے تو ملک مضبوط ہوگا۔ تھانہ کلچر، پٹواری کلچر کا فرسودہ نظام تبدیل کیا جائے ،افسر شاہی کو نوکری کے سلسلہ میں آئینی تحفظ دیا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری بیوروکریسی کی بھی ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ پیشہ ور بنے اور حکومت کی بجائے ریاست کی وفادار بننے کو ترجیح دے۔ اور سیاستدانوں کے ڈیروں کے چکر نہ لگائے اور کسی بھی قسم کی ٹرانسفر پوسٹنگ لینے کے لئے سفارش کی تلاش کی بجائے میرٹ کا نتظار کریں کیونکہ پنجاب میں یہ شروع ہو چکا ہے کہ کئی افسران جن میں پولیس افسران خاص طور پر پی ٹی آئی رہنماوں سے رابطے شروع کر رہے ہیں اور ضلعوں میں انتخاب جیتنے والے پی ٹی آئی کے اراکان اسمبلی کو پروٹوکرل دینا شروع کر دیا ہے تاکہ ان کی نوکری بچ سکے اور پی ٹی آئی کے حکومت سنبھالنے کے بعد انہیں تبدیل نہ کیا جائے ،ان میں تحصیل انتظامیہ پیش پیش ہے۔

اگلی آنے والی حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہونی چاہئے کہ افسر کی ٹرانسفر پوسٹنگ میں میرٹ کو اولین ترجیح دی جائے اور سفارش اور اقرباپروری کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اور جن صحیح افسر کو صحیح جگہ پر تعینات کر دیا جاتا ہے تو اسی سے نوے فی صد مسائل از خود حل ہو جاتے ہیں ۔حکومت کی ذمہ داری انصاف، میرٹ، اصلاحات اور اوپن ڈورپالیسی اور افسر شاہی کا نظام بدلنا ہونا چاہئے اور افسران کی ذمہ داری سیاسی عمل یا حکومت کی وفادار بننے کی بجائے ریاست اور عوام کے خادم سمجھیں تاکہ ایک عام آدمی اور عام شہری کو سکھ کا سانس مل سکے۔ تاکہ پاکستان چین ، بھارت، اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو سکے۔ یہ سبھی تب ہوگا جب ہم سب مل کر خلق خدا کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں گے۔
 
 
 
 
 

مزیدخبریں