سٹی42: بھارت میں مہا کنبھ میلے میں بھگدڑ مچنے سے کم از کم 30 افراد کے ہلاک ہو نے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ پاؤں تلے آ کر کچلے گئے یانسانوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
اتر پردیش کے شہر اہ آباد میں بدھ کی صبح مہا کنبھ میلے میں بھگدڑ مچنے سے کم از کم 30 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے، پولیس نے بتایا کہ شمالی بھارت میں مہا کمبھ تہوار کے دوران لاکھوں زائرین مقدس پانیوں میں ڈوبنے کے لیے پہنچے تھے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی پنڈتوں کی مذہبی رسموں کی ادائیگی کے دوران بھگدڑ مچی اور لاتعداد لوگ دوسروں کے پاؤں تلے آ کر کچلے گئے۔
بھارت میں 2016 سے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اور اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہی آدتیہ ناتھ حکومت کنبھ میلے میں شرکت کے لئے بھارت کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے لاکھوں ہندو مردوں اور عورتوں کو اس مرتبہ بھی منظم کرنے میں ناکام رہیں۔
اللہ آباد جس کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے بدل کر پریاگ راج رکھ دیا ہے، گنگا دریا کے کنارے آباد ہے اور ہندو مذہب کی روایتوں کے مطابق گنگا کے اس استھان کو مقدس ترین مانا جاتا ہے۔ کیونکہ اس جگہ گنگا، جمنا اور پورانیک سرسوتی ندیوں کا سنگم ہوتا ہے۔ پریاگ راج (الہ آباد) شہر میں پولیس افسر ویبھو کرشنا نے بتایا کہ مزید 60 زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
پریاگ راج یا الہ آباد میں کنبھ کے میلے کے دوران جس وقت یہ حادثہ ہوا وہ روایت کے مطابق چھ ہفتوں کے میلے کا مقدس ترین مانا جانے والا وقت تھا یعنی "مونی اماوسیا" یا نئے چاند کا دن، شہر میں دریا کے کنارے اس روز ہجوم معمول سے زیادہ تھا اور لوگ رسموں میں زیادہ قریب جا کر شریک ہونے کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔
بھگدڑ کی ذمہ داری کس پر؛ بھگدڑ کی ذمہ داری بھگدڑ پر!
بدھ کو چھ ہفتے کے ہندو تہوار میں ایک مقدس دن تھا، اور حکام کو توقع تھی کہ ریکارڈ 100 ملین عقیدت مند گنگا، یمنا اور پورانیک سرسوتی کے سنگم پر رسمی غسل کے لئے جائیں گے۔ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ اس مقدس مقام پر نہانے سے وہ ماضی کے گناہوں سے پاک ہو سکتے ہیں اور دوبارہ جنم لینے کے عمل کو ختم کر سکتے ہیں۔
اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک ٹیلیویژن بیان میں کہ بھگدڑ کا ذمہ دار بھگدڑ کو ہی قرار دیا۔ آدتیہ ناتھ نے کہا، بھگدڑ اس وقت ہوئی جب یاتریوں نے مقدس جلوس کے لیے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو پھلانگنے کی کوشش کی۔
تقریب کا مرکزی حصہ ہزاروں کی تعداد میں راکھ سے آلودہ ہندو سنیاسی ہوتے ہیں جو نہانے کے لیے گنگا جمنا اور گمشدہ ندی سرسوتی کےسنگم کی طرف بڑے پیمانے پر جلوس نکالتے ہیں۔
اتر پردیش کی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کے حکام کو ہلاکتوں کے اعداد و شمار جاری کرنے میں 16 گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا، یہاں تک کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جانوں کے ضیاع کو تسلیم کرتے ہوئے اس واقعے کو "انتہائی افسوسناک" قرار دیا اور تعزیت کا اظہار کیا۔
آدتیہ ناتھ نے دعویٰ کیا ، "صورتحال اب قابو میں ہے، لیکن وہاں یاتریوں کی بڑی بھیڑ ہے،" 90 ملین سے 100 ملین یاتری اس مقام پر تھے۔ بدھ کی صبح تقریباً 30 ملین لوگ صبح 8 بجے تک اشنان کر چکے تھے۔
ہر 12 سال بعد ہونے والا مہا کنبھ میلہ 13 جنوری کو شروع ہوا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ساتھی ہندوتوا کی پرچارک تنظیموں نے اس میلے مین زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شرکت پر اکسانے کے لئے تو بڑے پیمانے پر کیمپین کی لیکن میلے میں آنے والوں کو سنبھالنے اور حادثہ سے بچانے کے لئے یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے معمولی درجہ کے انتظامات سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔
بھگدڑ مین درجنوں انسانوں کے مارے جانے کے بعد بھی بھاجپا کی حکومت کے ماتحٹ حکام فخر سے بتا رہے تھے کہ مجموعی طور پر 400 ملین سے زیادہ لوگ زیارت گاہ پر پہنچیں گے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر داخلہ امت شاہ اور کولڈ پلے کے کرس مارٹن جیسی مشہور شخصیات سمیت تقریباً 150 ملین لوگ پہلے ہی میلے میں شرکت کر کے واپس جاچکے ہیں۔
"اچانک"
مہا کنبھ میلے میں بھیڑ کی دھکم پیل سے بھگدڑ مچنے کے واقعات ہر سال ہوتے ہیں، انسانی جانیں ہر سال ضائع ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہر سال ہونے والے سانحہ کو "اچانک" قرار دینے کی روایت پر اس سال بھیعمل کیا گیا۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے یاتری سروجنی کے حوالے سے بتایا کہ "اچانک بھیڑ میں دھکا ہوا، اور ہم پھنس گئے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ نیچے گر گئے اور بھیڑ بے قابو ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ فرار کا کوئی موقع نہیں تھا، لوگ ہر طرف سے دھکے کھا رہے تھے۔
اب الہ آباد عرف پریاگ راج میں لاپتہ پیاروں کی خبر سے مایوس خاندان عارضی ہسپتال کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ بھگدڑ کی جگہ کے ارد گرد کپڑے، کمبل اور بیگ بکھرے ہوئے تھے۔
بھگدڑ کے باوجود لاکھوں افراد نے 4,000 ہیکٹر (15 مربع میل) رقبہ پر زیادہ تر دریا کے کنارے پھیلی ہوئی زیارت گاہ پر جمع ہونا جاری رکھا، یہاں تک کہ پولیس نے میگا فونز پر انہیں سنگم سے دور رہنے کی تاکید کی۔ آخر میں وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اس مقدس سنگم کی بجائے دریا کے دوسرے کنارے پر نہائیں۔
الہ آباد میں بھارت کے دور دراز علاقوں سے آنے والے لاکھوں سنیاسیوں اور عام زائرین کے لیے دریا کے کنارے ایک وسیع و عریض ٹینٹ سٹی بنایا گیا ہے جس میں سڑکیں، بجلی اور پانی، 3,000 کچن اور 11 ہسپتال ہیں۔ بظاہر لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کے تھوڑے بہت انتظامات کو ہر سال کی طرح اس سال بھی بڑھا چڑھا کر بتایا گیا لیکن آنے والوں کو منظم رکھنے کے لئے پولیس اور دوسرے اداروں کے پاس عملاً کوئی پلان نہیں تھا۔
تقریباً 50,000 سیکورٹی اہلکار شہر میں امن و امان کو برقرار رکھنے اور ہجوم کو منظم کرنے کے لیے تعینات ہیں، اور 2,500 سے زیادہ کیمرے بھیڑ کی نقل و حرکت اور کثافت پر نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ اہلکار اس طرح کے کچلنے کو روکنے کی کوشش کر سکیں، لیکن اس سارے انتظام کا عملی نتیجہ ہر سال کی طرح ایک اور سٹمپیڈ کی صورت میں ہی نکلا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت پر کڑی تنقید
متعدد اپوزیشن رہنماؤں نے بھاجپا کی وفاقی اور ریاستی حکومت پر تنقید کی، اور بھگدڑ کو "بدانتظامی" اور "VIP کلچر" کا نتیجہ قررار دیتے ہوئے حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا - بعد میں ان کے کہنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیاست دانوں اور مشہور شخصیات کے ساتھ ترجیحی سلوک رکھا گیاہے۔
مہا کنبھ تہوار میں ماضی میں کئی مرتبہ بھگدڑ مچی تھی۔ 2013 میں، کم از کم 40 یاتری جو تہوار میں حصہ لے رہے تھے، پریاگ راج کے ایک ٹرین اسٹیشن پر بھگدڑ میں ہلاک ہو گئے تھے۔
مہلک بھگدڑ ہندوستانی مذہبی تہواروں کے آس پاس نسبتاً عام ہے، جہاں چھوٹے علاقوں میں بڑا ہجوم جمع ہوتا ہے۔ جولائی میں جب شمالی ہندوستان میں ایک مذہبی اجتماع میں ہزاروں افراد نے ہاتھرس قصبے میں ایک خیمہ کیمپ میں بھگدڑ مچی تو کم از کم 116 افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے،
بہتر انتظامات کرنے کی ضرورت
ہندوستانی اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے سوشل پلیٹ فارم X پر لکھا، "حکومت کو عام عقیدت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہتر انتظامات کرنے چاہییں۔"
45 روزہ تہوار ہندوستان کے ہندوؤں کے لیے ایک اہم ثقافتی تقریب ہے، جو ملک کی 1.4 بلین سے زیادہ آبادی میں سے تقریباً 80 فیصد ہیں۔ یہ مودی کے لیے بھی ایک وقار کا ایشوہے، جس کی حکمران جماعت ہندو ثقافتی علامتوں کو فروغ دینے پر فخر کرتی ہے۔