سٹی42:
سپریم کورٹ میںسابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کیخلاف صدارتی ریفرنس کیوقفے کے بعد کیس کی سماعت شروع ہوئی تو فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار بھٹو جونیئر کے وکیل زاہد ابراہیم کے دلائل دوبارہ شروع ہوئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بنچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ عدالت کے چند سوالات کا جواب دونگا، ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف شکایت کنندہ کا کردار بھی دیکھا جائے۔نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، بھٹو کیخلاف کیس چلا اس وقت کے مارشل لاء کے ماحول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،نسیم حسن شاہ نے کہا ہم بے بس ہیں،
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا یہ تو عمومی بات معلوم ہوتی ہے،
جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال کیا کہ کیا ہم مارشل لاء کے دور میں کیے گئے تمام فیصلوں کو واپس کریں گے، ایسے تو مقدمات کا سیلاب امڈ آئے گا، عبدالولی خان کا کیس تھا وہ سارے کیسز کھلنا شروع ہو گئے ابھی حال ہی میں ایسا کیس آیا تھا۔ اگر ایسا ہوگیا تو کیا ہوگا۔
فاطمہ بھٹو کے وکیل زاہد ابراہیم نے کہا، خدشات کا اظہار کیا گیا کہ ریفرنس پر فیصلے سے مقدمات کے حتمی ہونے کا اصول متاثر ہوگا، فیصلوں کا حتمی ہونا اچھی بات ہے لیکن انصاف ہونا زیادہ ضروری ہے۔
فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار بھٹو کے وکیل زاہد ابراہیم نے دلائل مکمل کر لئے
فاروق ایچ نائیک کے دلائل
بلاول بھٹو کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل کا آغاز کر دیا ۔ فاروق ایچ نائیک نے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویوز عدالت میں پیش کر دیئے ۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ انٹرویوز کے ٹرانسکرپٹ کا متعلقہ حصہ بتا دیں اس کا جائزہ لے لینگے،
چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا، کیا انٹرویو میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ دبائو میں کیا گیا تھا؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا، اس انٹرویو میں ایسا کوئی جملہ نہیں ہے باقی انٹرویوز کا بھی جائزہ لیں پھر صورتحال واضح ہوگی، نسیم حسن شاہ نے کہا فوج آئے تو کہتی ہے عدالت ہمارے معاملے میں دخل اندازی نہیں کر سکتی۔نسیم حسین شاہ نے کہا مارشل لاء میں عدلیہ جرنیلوں کے ماتحت ہوتی ہے۔
نسیم حسن شاہ نے کہا بھٹو کیس میں کسی نے کہا کہ یہ فیصلہ کرو۔ نسیم حسن شاہ نے کہا ہوسکتا ہے وہ چیف جسٹس سے بات کرتے ہوں یا کچھ ہم سے کہتے ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ نسیم حسین شاہ نے جو کہا اس کا سزا سے تعلق نہیں ہے،
دوران سماعت کمرہ عدالت میں سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو چلایا گیا
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ن پوچھا، کیا یہ کہا گیا ہم سزا دینے کے مخالف تھے،
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ انٹرویو میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، نسیم حسن شاہ نے کہا کم سزا بنتی تھی سزائے موت کا کیس نہیں تھا،
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نسیم حسن شاہ کا انٹرویو شکوک پیدا کرتا ہے۔ نسیم حسن شاہ نے کہا مناسب ہوتا کہ مولوی مشتاق بھٹو کیس نہ سنتے۔نسیم حسین نے کہا مولوی مشتاق اور ضیاء کے آپس میں تعلقات تھے۔ نسیم حسن شاہ نے کہا جج کو بنچ سے الگ کرنے کی استدعا کیلئے ٹھوس مواد ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا، یہ تو غیرمتعلقہ باتیں ہیں وہ حصہ دکھائیں جہاں نسیم حسین شاہ نے دباو میں فیصلے کا اعتراف کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ، عدالت نے صرف ان سوالات کا جواب دینا ہے جو صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے ہیں۔
انصاف کے قتل کا مداوا کرنا ہے تو پارلیمنٹ قانون سازی کرے، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور نے کہا ریفرنس میں کونسا قانونی سوال ہے پہلے یہ واضح کریں۔صدارتی ریفرنس میں صرف قانونی سوالات ہی پوچھے جا سکتے ہیں، سب کہہ رہے ہیں بھٹو کیس میں انصاف کا قتل ہوا ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں ناانصافی ہوئی اور اسے درست کیا جائے۔ مگر سپریم کورٹ آرٹیکل 186 کے تحت پرانے کیس کو دوبارہ کیسے کھولے۔عدالت کو کوئی راستہ تو بتایا جائے کہ آرٹیکل 186 کا دروازہ کیسے کھولیں۔انصاف کے قتل کا مداوا کرنا ہے تو پارلیمنٹ قانون سازی کر لے۔ذوالفقار علی بھٹو کیس میں یا تو قانون سازی کی جائے یا کیوریٹو ریویو کا تصور لایا جائے۔قانون سازی یا آئینی ترمیم کے بغیر بھٹو کیس کیسے دوبارہ سنا جائے،جسٹس منصور علی شاہ
فاروق ایچ نائیک نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا، نسیم حسن شاہ نے انٹرویو میں تسلیم کیا مولوی مشتاق بھٹو سے ناراض تھے،رفیع رضا کی کتاب کا حوالہ دینا چاہتا ہوں،
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا، ہم نے ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات پر فوکس کرنا ہے۔پہلے قانونی سوال بتائیں، سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس میں تبدیلی نہیں کر سکتی۔کیا یہ قانونی سوال ہے۔
چیف جسٹس نے کہا میں اسکا جواب دونگا کہ اس بات کا صدر جواب دے،
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ حقائق پر مشتمل سوال اور قانون کے سوال میں فرق ہوتا ہے،
چیف جسٹس نے کہا، حقائق کا سوال اور قانون کا سوال دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔قانونی سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ کیا ججز میں تعصب تھا، ہمارا جواب پھر اس پر آئے گا۔
چیف جسٹس نے کہا،یہ بھی حقائق کا سوال ہے،
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا، ہر کسی کو بولنے کی آزادی حاصل ہے، قانونی سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا ٹرائل کے وقت ججز پر دباؤ تھا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ قانونی سوال کیسا ہوگا،
چیف جسٹس نے کہا، سوال قانونی نوعیت کا ہے یا نہیں اس کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ کبھی تو صدر ایسے سوال بھی بھیج دیتے ہیں کہ خفیہ بیلٹ کیا ہوتا ہے۔بعض اوقات تو سادہ انگریزی کے سوالات بھی آجاتے ہیں۔
فاروق نائیک نے کہا، پہلا سوال ہے کہ کیا بھٹو کیس کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہے،
جسٹس منصور علی شاہ نے ضد کی کہ اس سوال کا جواب صدر کو خود دینا چاہیے۔قانونی سوال کا جواب دینے کیلئے مقدمہ کے حقائق کا جائزہ نہیں لینا ہوتا، عدالت کو اپنی غلطی سدھارنے میں کوئی عار نہیں لیکن طریقہ کار تو بتائیں۔ابھی تک سمجھ نہیں آرہا کہ ریفرنس میں کیا قانونی سوال اٹھایا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ جب صدارتی ریفرنس آیا اس وقت وزیر قانون بابر اعوان تھے وہ غائب ہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بابر اعوان نے دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔
چیف جسٹس نے کہا، سپریم کورٹ کے سات رکنی رکنی بنچ کا فیصلہ موجود ہے۔ کیا کوئی چاہتا ہے کہ ایسا فیصلہ قانون کی کتابوں میں موجود رہے؟یہ اہم سوال ہے۔ ثناء اللہ بلوچ کیس کی مثال موجود ہے۔ ہم شروع میں صدارتی ریفرنس پر سوال اٹھاتے تو الگ بات تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے تکرار جاری رکھی اور کہا، غلط ٹرائل ہوا یہ تو فیکچوئل سوال ہے، یہ تو قانونی سوال ہی نہیں ہے۔تمام شواہد دیکھنا حقائق کا جائزہ لینا ہوتا ہے،
فاروق ایچ نائیک نے کہا سپریم کورٹ اس وقت کے حالات کو بھی مدنظر رکھے۔عدالت کے سامنے مزید بھی کچھ دستاویزات رکھوں گا۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کو ہدایت کی کہ آپ تحریری طور پر اپنی معروضات دے دیں ہم دیکھ لیں گے۔ بلاول بھٹو کے وکیل فاروق ایچ نائیک کے دلائل مکمل ہو گئے۔
اعتزاز احسن کو بار بار سرزنش
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کیخلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت کی معاونت کے لئے پیش ہونے والے بیرسٹر اعتزاز احسن کو سپریم کورٹ کے ججوں نے کئی بار غلط بیانی پر ٹوکا اور آخر جھاڑ پلا دی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے آپ چاہتے ہیں کہ ہم اس کیس میں کسی فیصلہ تک نہ پہنچیں۔
بدھ کے روز وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو پہلے احمد رضا قصوری روسٹرم پر آگئے۔ احمد رضا قصوری نے کہا ریفرنس میں قانونی سوال نہیں اس لیے صدر کو واپس بھیج دینا چاہیے،صدر مملکت نیا ریفرنس دوبارہ سپریم کورٹ بھیجیں۔
چیف جسٹس نے احمد رضا قصوری کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا، آپکی بات ہم بعد میں سن لیں گے ۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اس کیس کے فیصلے میں احتیاط کرنی چاہیے۔عدالتی رائے کسی ایک فریق کیخلاف ہوئی تو اشتعال پھیل سکتا ہے۔ہمارے ملک میں لوگ بہت جلد حساس معاملات پر مشتعل ہوجاتے ہیں۔لاہور کا واقعہ دیکھ لیں حلوہ شرٹ پر لکھا تھا اس عورت کو لوگ مارنے پر اتر آئے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا اگر یہ حساس معاملہ ہے تو پارلیمنٹ خود دیکھ لے۔
اعتزاز احسن نے کہا پارلیمنٹ تو ہمیں سنجیدہ ہی نہیں لیتی۔
چیف جسٹس نے اعتزازز احسن سے کہا ویسے پوچھ رہا ہوں کہ لوگ سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کیوں دیتے ہیں۔کیا کسی اور ملک میں بھی ہوتا ہے یا صرف پاکستان میں لوگ سیاسی جماعت بدلتے ہیں۔ دیگر ممالک میں لوگ مرتے دم تک ایک ہی جماعت کیساتھ رہتے ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا لوگ جماعت اس لیے بدلتے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت ابھی پروان چڑھ رہی ہے۔(چیف جسٹس کا اشارہ اعتزاز احسن کی طرف تھا)
جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کیا سپریم کورٹ فیصلے میں بدنیتی قرار دے سکتی ہے۔
اعتزاز احسننے کہا کہ سپریم کورٹ نے بدنیتی پر فیصلہ دیا تو کیس دوبارہ سننا پڑے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال پوچھا کیا سپریم کورٹ یہ قرار نہیں دے سکتی کہ بھٹو کیس کا فیصلہ غلط تھا۔بلوچستان میں جرگہ سسٹم تھا، غلط فیصلے ہوتے تھے، کیا انکو بھی غلط نہیں کہا جاسکتا؟ جسٹس جمال مندوخیل کی طنز کو برداشت کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر جواب دینے کی پابند ہے۔لازمی نہیں کہ یہ کہا جائے فیصلہ درست ہے یا غلط نو کمنٹس بھی لکھا جاسکتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے آبزرویشن دی کہ بھٹو کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے، ٹرائل کورٹ سے ایف آئی اے کو کیسے کیس منتقل ہوگیا۔ بھٹو کیس کا بند ٹرائل دوبارہ کیسے کھولا گیا یہ بھی دیکھنا ہوگا۔
اعتزاز احسن نے اس پر کہا کہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس کا فیصلہ درست نہیں تھا، سپریم کورٹ اور معاملات میں نہ پڑے بس یہ کہہ دے فیصلہ درست تھا یا نہیں۔ ضیا دور میں پیپلزپارٹی کیساتھ جو کیا گیا وہ بھی دیکھنا ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کیخلاف بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تنبیہہ کی اعتزاز صاحب سیاسی باتیں نہ کریں۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ اس وقت مارشل لا تھا لوگوں کو بے گناہ جیل میں ڈالا گیا۔
،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے، ہمیں پتا ہے ہماری تاریخ اچھی نہیں۔ آئین میں زبردستی ترامیم کی گئیں۔ سیاسی معاملات میں نہیں جانا چاہتے۔ صرف صدارتی ریفرنس تک محدود رہیں۔ آپ اپنے پرانے معاملات کو اس کیس کیساتھ نہ جوڑیں۔ آپ باہر تقریر کرتے ہیں کہ تیس سیکنڈ میں کیس سمجھا سکتا ہوں۔
اعتزاز احسن نے کہا، عدالت مجھے سنے گی تو تیس سیکنڈ میں بات ختم کر دیں گے۔ذوالفقار علی بھٹو کے دوست نے رحم کی اپیل کی تھی،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تصحیح کی کہ جب ذوالفقار بھٹو نے رحم کی اپیل نہیں کی تو دوسروں کو چھوڑ دیں۔
جسٹس سردار طارق مسعود نت بھی تصحیح کی کہ بھٹو کیس میں رحم کی اپیل تو دائر ہوئی ہی نہیں تھی۔
اعتزاز احسن نے کہا ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف اداروں کی بدنیتی تھی۔
جسٹس یحیی آفریدی نے تیبیہہ کی، اعتزاز احسن صاحب آپ تمام اداروں کو بدنیت نہیں کہہ سکتے،
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے، صدر نے ریفرنس میں اداروں کی بدنیتی کی بات نہیں کی تو ہم نہیں سنیں گے۔ آپ چاہتے ہیں ہم اس کیس کا فیصلہ ہی نہ کر پائیں۔ جلد دلائل مکمل کریں ہم نے کیس ختم کرنا ہے۔
اعتزاز احسن نے دعویٰ کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دوست ملک غلام جیلانی نے رحم کی اپیل کی تھی۔ چیف جسٹس نے اس دعوے پر رضا ربانی سے سوال کیا، رضا ربانی صاحب کیا آپ اتفاق کرتے ہیں کہ ذوالفقار بھٹو نے رحم کی اپیل کی تھی۔
رضا ربانی نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے رحم کی اپیل نہیں کی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے اعتزاز احسن کو تنبیہہ کی کہ جب اس معاملے کا کیس سے تعلق ہی نہیں تو وقت ضائع کیوں کیا جارہا ہے۔
اعتزاز احسن نے عذر پیش کیا کہ میں صرف تاریخ بتا رہا ہوں۔ میں نے کب کہا ذوالفقار علی بھٹو نے رحم کی اپیل کی۔
عدالتی معاون اعتزاز احسن نے غیر ملکی عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، کینیڈا میں عدالت نے درخواست گزار کی وفات کے بعد کیس کو دوبارہ کھول کر سنا،
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کینیڈا کی عدالت نے پرانا فیصلہ برقرار رکھا تھا اور اپیل مسترد کی تھی۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ کیس اس وقت کی بہت بڑی ضرورت اور چیلنج ہے،عوامی اہمیت کے حوالے سے کچھ بات کرونگا۔
جسٹس یحیی آفریدی نے تنبیہہ کی اعتزاز صاحب آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ عدالت عوامی اہمیت کا پہلو نہ دیکھے۔ بدنیتی سے متعلق پہلو کا تحریری جواب دے دیں۔
اعتزاز احسن نے کہا، مارشل لا دور میں پوری عدلیہ آرمی چیف کے کنٹرول میں تھی۔
جسٹس یحیی آفریدی نے دوبارہ انہیں تنبیہہ کی،ایسی بات نہ کریں سپریم کورٹ کے تین ججز نے بھٹو کے حق میں فیصلہ دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا، اعتزاز احسن صاحب کب تک دلائل ختم کریں گے میں جلدی رات کا کھانا کھاتا ہوں۔ یا تو کھانے کے بعد دوبارہ آپکو سن لیتے ہیں،
عدالتی معاون کی حیثیت سے پیش ہونے والے اعتزاز احسن نے کہامیں جلدی اپنی دلائل ختم کرتا ہوں،میں نے یہ نہیں کہا کہ ذوالفقار بھٹو نے رحم کی اپیل کی تھی۔اعتزاز احسن
نے یہ کہ کر اپنے دلائل مکمل ہونے کا اعلان کر دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ باقی وکلا کو پیر کو سن لیں گے۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ عدالتی معاون منظور ملک،اعتزاز احسن اور فاروق ایچ نائیک نے دلائل مکمل کیے،فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار بھٹو جونیئر کے وکیل زاہد ابراہیم نے دلائل مکمل کیے۔ اب کیس کی سماعت پیر 4 مارچ تک ملتوی کردی گئی ہے۔پیر کو کیس کی سماعت مکمل ہوجائے گی۔
مسعود محمود کے بیرون ملک جانے کی تفصیلات طلب
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے گواہ مسعود محمود کے بیرون ملک جانے کی تفصیلات طلب کر لیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنچ سماعت کر رہا ہے ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس یحیی آفریدی ،جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل ہیں۔ کیس کی کاروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے ۔
عدالتی معاون سابق جج سپریم کورٹ منظور احمد ملک کے دلائل مکمل کر لیے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا میاں محمد عباس گواہی کے کٹہرے میں آئے؟عدالتی معاون منظور احمد ملک نے جواب دیا کہ میاں محمد عباس کبھی گواہی کے کٹہرے میں نہیں آئے، کل میں گواہ مسعود محمود پر جرح کی بات کر رہا تھا،اس دوران جسٹس یحیی آفریدی نے اہم سوال اٹھایا،ایک گواہ نے کہا ڈی جی ایف ایس ایف سے احمد رضا قصوری کو کلیئر کرنے کی ہدایت ملی،یہ بیان کیس کے وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کے بیان کو رد کر رہا تھا۔
وعدہ معاف گواہ نے اپنی گواہی میں کہا تھا قتل کی ہدایات وزیراعظم سے ملیں،دوسرے گواہ کا بیان جو وعدہ معاف گواہ کیخلاف جا رہا تھا اسے نظر انداز کر دیا گیا،سوال تھا کیا گواہ میاں عباس کا بیان 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے ہوا،اس سوال کا جواب ہاں میں ہے مگر 342کے بیان میں انہوں نے کہا وہ رضاکارانہ بیان نہیں تھا،164 کے تحت محض بیان ریکارڈ کرانے سے کوئی وعدہ معاف گواہ نہیں بن جاتا،جب تک اسے معافی نہ دی جائے گواہ کا 164 کا بیان صرف اعتراف جرم ہوگا۔
عدالتی معاون منظور احمد ملک نے مزید کہا کہ ذوالفقار بھٹو اور انکے مخالف کی شخصیت کا بتانا چاہتا ہوں،چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کی شخصیت اور ذاتی زندگی کا موازنہ نہ کریں،عدالتی معاون نے کہا کہ کسی کی ذات کی بات نہیں کر رہا مگر حقائق بتانا ضروری ہیں،ذوالفقار علی بھٹو جیسا شخص اپنے مخالف کو قتل نہیں کرا سکتا،ذوالفقار علی بھٹو کا رویہ اپنے مخالفین کیساتھ اتنا کبھی سخت نہیں رہا۔
ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف سازش کا لفظ غلط استعمال کیا گیا،ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف وعدہ معاف گواہ کا بیان سازش کی نفی ہے۔
عدالتی معاون سابق جسٹس منظور ملک نے مزید کہا کہ ایک گواہ نے کہا اس نے بھٹو صاحب سے کہا ہم سب کو خدا نے انجام تک پہنچانا ہے،گواہ نے کہا میں نے بھٹو صاحب سے کہا میں مزید ایسے احکامات کی بجاآوری نہیں کروں گا،کیا ایک آفیسر وزیراعظم کے سامنے ایسی بات کر سکتا ہے؟کیا اس سپریم کورٹ کا رجسٹرار چیف جسٹس کے سامنے ایسی باتیں کہنے کی جرات کر سکتا ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا میں آپ سے متفق نہیں ہوں، میں تو کئی چیزوں پر رجسٹرار کے اختلاف پر حوصلہ افزائی کرتا ہوں،عدالتی معاون منظور ملک نے کہا کہ میں نے آپ کی تو بات ہی نہیں کی آپ خود پر نہ لیں،
منظور ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف گواہان کے بیانات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں، ذوالفقار علی بھٹو کا کیس قتل کا ٹرائل نہیں بلکہ ٹرائل کا قتل تھا،عدالت نے دیکھنا ہے کہ تاریخ درست کرنی ہے یا نہیں،عدالت ریکارڈ کے مطابق فیصلہ کرے کہ تکنیکی معاملے پر جانا ہے یا مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرنا ہے،بھٹو کی پھانسی کے سیاسی اثرات بھی ہیں ان پر بات نہیں کروں گا، اندرون سندھ کے لوگ آج بھی بھٹو کی پھانسی کو نہیں بھول سکتے ۔
احمد رضا قصوری نے عدالتی معاون کے دلائل مکمل ہونے پر کہا کہ منظور ملک نے تو بھٹو کے وکیل کا کردار ادا کیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ان سے کہا کہ ہم نے منظور ملک صاحب کو معاون مقرر کیا وہ خود سے بولنے نہیں آئے،آپ کو کوئی بات کرنی ہے تو اپنی باری پر کر لیجیے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کا تعلق بھی قصور سے ہے۔
کیا قتل کا حکم دینے والے کو مسعود محمود اور مدعی مقدمہ کے تعلق کا علم نہیں تھا؟ کیا سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ نے اس پہلو کا جائزہ لیا تھا؟ یہ بھی ممکن ہے کہ دشمنی یا مخالفت اپنے علاقہ کے لوگوں سے ہی ہوتی ہے، کیا اس پہلو کی تحقیقات کی گئیں کہ قتل کا حکم کسی اور نے دیا اور نام وزیراعظم کا لگا دیا گیا؟ گواہ کا ضمیر تین سال بعد ہی کیوں جاگا؟چیف جسٹس کا عدالتی معاون منظور ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ بنچ کا حصہ تھے لیکن پھر بھی دس بارہ سال یہ مقدمہ نہیں چلایا گیا۔