ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسحاق ڈار "نکا وزیر اعظم" نواز ،شہباز اور زرداری فارمولا

اسحاق ڈار
کیپشن: File photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

تحریر:عامر رضا خان،سیاست کے میدان سے اچھی خبر ہے کہ سابق وزیر خزانہ اور موجودہ وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کو وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے ڈپٹی وزیر اعظم کا عہدہ تفویض کیا ہے اس طرح وہ ملک کے دوسرے ڈپٹی وزیر اعظم ہوں گے ان سے قبل چودھری پرویز الہیٰ دورِ زرداری میں اس عہدے پر تعینات ہوئے تھے ، یہ ایک  لمبی بحث ہے کہ اس عہدے کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ کیا وزیر اعظم اپنا کوئی نائب مقرر کرسکتا ہے یا نہیں اور ’نکے وزیر اعظم‘ کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ؟
سب سے پہلے آئین کو دیکھ لیتے ہیں کہ جس کے اندر کسی ایسے عہدے کی آئینی حیثیت موجود نہیں ہے اس لیے ڈپٹی پرائم منسٹر شپ ایک اشاریہ یا اعزازی عہدہ ہوگا ، جب پرویز الہیٰ کو 2012 میں آصف علی زرداری کے کہنے پر یہ عہدہ دیا گیا تھا اُس وقت سیاسی ضرورت کا تقاضہ تھا کہ پیپلز پارٹی  اپنی ڈوبتی سیاسی کشتی کو کچھ وقت کے لیے ق لیگ کی " ٹاکی لگا کر "  بچائے اور ایسا ہوا بھی کہ پرویز الہیٰ کے ساتھ ملنے سے پیپلز پارٹی کو دہرا فائدہ پہنچا، قومی اسمبلی کے اندر اور پنجاب اسمبلی میں طاقت بڑھی حکومت مضبوط ہوئی ، اُس وقت کی اپوزیشن موجودہ حکومت کے ترجمانوں نے اسے طنزاً  ڈپٹی وزیر اعظم کے اس عہدے کو " نکے وزیر اعظم " کا نام دیا ، یہ ایک سیاسی رشوت تھی جو دھڑلے سے دی گئی اور تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود پیپلز پارٹی اور پرویز الہیٰ پنجابی گانے " اسی ماہیا اینج ملیے جیویں ٹچ بٹناں دی جوڑی" کے مصداق ہوگئے، وقت کی کروٹ نے نواز شریف کو وزیر اعظم بنایا تو شریف خاندان نے پرویز الہیٰ اور اُن کی جماعت کے لیے نو لفٹ کا بورڈ آویزاں کرلیا ، اس طرح ق لیگ کا یہ پلڑا اپنا سیاسی و مالی مفاد دیکھتے ہوئے عمران خان کے ساتھ شامل ہوگیا  اور یہ پیار اس حد تک بڑھا کہ اُس وقت کا نکا وزیر اعظم آج بھی جیل میں ہے اور اسے تحریک انصاف کا صدر بھی بنا دیا گیا ہے۔

اب بات کرتے ہیں کہ آئین میں اس عہدے کی کتنی گنجائش ہے اور اس عہدے کو حاصل کرنے والے کے پاس کیا اختیارات ہوں گے؟ یہ بڑی دلچسپ بحث ہے جو آنے والے دنوں میں شاید عدالت کی سیڑھیاں بھی چڑھ جائے ، آئین میں اس عہدے کا سر ے سے ذکر ہی موجود نہیں ہے لیکن اسی آئین کے آرٹیکل کے تحت جس کام کے کرنے سے آئین میں کوئی قدغن نہیں لگایا گیا ہو اُسے کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے آئین کی اصل پارلیمانی روح متاثر نا ہوتی ہو ماہرین کے مطابق 
Article 90(2) of the constitution does allow the prime minister to act either directly or through his federal ministers (the cabinet).
’’اگر تشریح کی جائے تو آئین کا یہ آرٹیکل وزیر اعظم کو براہ راست یا اپنی کابینہ کے ذریعے کام کرنے کی اجازت دیتا ہے‘‘
یعنی آئین یہ اجازت دیتا ہے کہ وزیر اعظم اپنی عدم موجودگی میں یا اپنی موجودگی میں کابینہ یا اس کے کسی رکن کو اپنا مددگار بناسکتا ہے جیسے وزارتوں کی تقسیم اور سنیئر وزیر کا تقرر بھی اسی کی ایک کڑی ہوتی ہے لیکن 2012 میں پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے سیاسی انجئنیرنگ کے لیے اس عہدے کو متعارف کرایا اور اُن کا یہ فارمولا کامیاب بھی رہا ، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2012 والا اقدام دو سیاسی پارٹیز کے مابین ایک طرح سے اقتداری معاہدہ تھا جس میں دونوں فریقوں نے اپنی اپنی سطح پر کامیابی حاصل کی لیکن آج اس عہدے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ؟
ملک میں اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور بظاہر اسے کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی خطرہ نہیں ہے تو پھر " نکا وزیر اعظم " کیوں ؟ یہ ہے وہ سوال جس کے جواب کی تلاش کے لیے بڑے بڑے دانشور سرگرداں ہیں ، ظاہر کہ یہ تھیوری تو زبان زد عام ہے کہ نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف کے مابین چند اختلافات ہیں جس کے باعث نواز شریف اب مسلم لیگ ن کی سربراہی واپس لینا چاہتے ہیں اور انہیں ہی منانے کے لیے اُن کے سمدھی اسحاق ڈار کو " نکا وزیر اعظم " یا ڈپٹی پرائم منسٹر بنایا گیا ہے ، شاید سوچنے والوں کا یہ اندازہ بھی درست ہو لیکن میرے نقطہ نگاہ سے یہ اس سے بھی بڑھ کر وسیع تر ملکی مفاد میں فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کی بڑی وجہ سیاسی نہیں معاشی ہے ۔

جی ہاں معاشی اسحاق ڈار ایک منجھے ہوئے معیشت دان ہیں،وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں،موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کی واپسی میں اُن کا کلیدی حصہ رہا ہے، وزیر اعظم کو معیشت کی بحالی کے لیے ایک ایسے "دسطختی "  کی ضرورت ہے جو زیادہ اختیار کے ساتھ خزانے اور وزیر خزانہ دونوں پر نظر رکھ سکے، اس کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے؟ یہ ایک ایسی بات ہے جس کو وہ لوگ زیادہ جلدی سمجھ سکتے ہیں جنہیں اس بات کا اندازہ ہوکہ اسحاق ڈار کو کس نے وزیر خزانہ نہیں بننے دیا اور مجبوراًپاکستان کو بیرون ملک سے وزیر خزانہ بلانا پڑا لیکن نئے وزیر خزانہ کو ملک کے معاشی مسائل سمجھنے میں کسی قسم کی دقت اور ماضی میں ہونے والے معاہدات کو سمجھنے میں مشکل کے پیش نظر اب اسحاق ڈار کو اتارا گیا ہے ، یقیناً اس فیصلے سے نواز ،شہباز اختلافات کی خبروں میں بھی کمی آئے گی اور جو اسے زرداری فارمولے سے تعبیر کرنا چاہتے ہیں انہیں بھی ہم نہیں روکیں گے کہ سوچ پر تو پابندی نہیں لگائی جاسکتی ۔