(ویب ڈیسک) بلوچستان میں ہنگلاج ماتا کی شری ہنگلاج شیوا منڈلی کے دوسرے روز دنیا بھر سے مزید ہزاروں یاتری ھنگول نیشنل پارک میں واقع ھنگلاج ماتا کے مندر پہنچ گئے۔
کل تین روزہ میلہ کے پہلے دن یاتریوں نے صدیوں پرانی روایات کے مطابق چندر کپ کے مقام پر مٹی کے آتش فشاں میں ناریل پھوڑ کر پوجا کا آغاز کیا تھا۔
دریائے ھنگول کے کنارے ایک غار میں بنے ہوئے ھنگلاج ماتا کے مندر کو ہندو مذہب میں خصوصی تقدس کا رتبہ حاصل ہے۔ ہندو مذہب کے عقائد کے مطابق جب شو جی نے ستی دیوی کا قتل کیا تھا تو ان کے جسم کے ۵۱ ٹکڑے ہو کر زمین پر مختلف جگہوں پر گرے تھےاور ستی دیوی کا سر مکران کے ساحلی علاقہ میں دریائے ھنگول کے کنارے آ گرا تھا جہاں بعد میں ھنگلاج دیوی نے تپسیا کی اور عظیم شکتیاں حاصل کیں۔ روایات کے مطابق ھنگلاج دیوی نے ھنگول نامی شریر کا پیچھا کر کے اسے اس غار میں قتل کیا تھا جہاں اس وقت ھنگلاج ماتا کا مندر قائم ہے۔
ھنگلاج ماتا جنہیں ھنگلا ماتا بھی کیا جاتا ہے، کو نیکی کے لئے شکتی دینے والی بہت بڑی دیوی مانا جاتا ہے اور ان کے ماننے والے بھارت، نیپال، پاکستان سمیت دینا بھر میں کہیں بھی ہوں زندگی میں ایک بار ھنگول پارک کی ایک گھپا میں واقع دیوی ماتا کے استھان کی یاترا کرنے کے لئے ضرور آنا چاہتے ہیں.
اس سال ھنگلاج دیوی کی سالانہ یاترا کے موقع پر بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں طوفانی بارشیں ہو رہی ہیں تب بھی سینکڑوں یاتری عقیدت کے اظہار کے لئے کراچی، لسبیلہ اور دوسرے شہروں سے پیدل چل کر دیوی کے مندر پہنچے۔ یاترا کے تین دنوں کے دوران یہاں حاضری دینے والوں کی مجموعی تعداد دو لاکھ تک ہونے کی توقع ہے۔
میلے کے ایک منتظم مہاراج گوپال نے بتایا کہ کوسٹل ہائی وے بننے سے پہلے لوگ یہاں عام گاڑیوں میں نہیں آ سکتے تھے تو وہ پہاڑوں، جنگلوں اور ندی نالوں سے گزر کر پیدل یا پھر جیپوں، اونٹوں اور گھوڑوں پر آتے تھے، بعض لوگ سمندر کے راستے بھی آتے تھے۔ کوسٹل ہائی وے اور سڑکیں بننے کے بعد یہاں تک پہنچانا آسان ہو گیا ہے اب لوگ گاڑیوں اور بسوں میں قافلوں کی صورت میں پہنچتے ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کےسینیٹر دھنیش کمار کے مطابق اب بھی ہزاروں لوگ پیدل اس مندر تک آتے ہیں۔ تھر پارکر سے ہندو یاتری تقریباً 700 کلومیٹر پیدل سفر کرکے میلے میں شرکت کے لیے پہنچے ہیں۔
API Response: