آرمی چیف نے کس کے لیے کیا پیغام دیا ؟ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈا پور نے احتجاج کی سربراہی کیوں کی ؟ کیا راز ہے ؟ شہباز شریف حکومت کا خاتمہ کیا نزدیک ہے اور نواز شریف نے دورہ لندن کیوں موخر کیا؟ سارے سوال ہی اہم ہیں کہ ان کا آنے والے ملکی حالات سے گہرا ربط ہے۔ آئیے ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں میری مدد فرمائیں اور جہاں میں غلط ہوں اس کی نشاندہی بھی فرمائیں ۔
سب سے پہلا سوال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ہفتے کے روز ہونے والے احتجاج کی سربراہی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈا پور کو کیوں دی گئی ؟ پنجاب کا شہر راولپنڈی جس پر عملداری تخت لاہور کی ہے،اس میں ہونے والے احتجاج کی سربراہی کے لیے گنڈا پور نے خود عمران خان سے بات کی تھی، آپ کو یاد ہوگا میں نے لکھا تھا کہ اڈیالہ میں بانی تحریک انصاف اور علی امین گنڈا پور کی ملاقات میں کیا کچھ ہوا، اس کا مخبر پشاور میں موجود ہے اب بات جو ہم تک آئی ہے کہ علی امین نے ہی عمران خان کو راولپنڈی میں جلسہ کرنے سے منع کیا تھا ،کپتان سے کہا گیا کہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر پارٹی کو وہ مالی و افرادی سپورٹ حاصل ہی نہیں جس سے کوئی کامیاب جلسہ منعقد کیا جاسکے، جلسہ ایک جگہ ہونے کے باعث 9 مئی کے مفرورین اور افغان مہاجر کیمپوں سے لائے گئے افغانی جلد پہچانے جاتے ہیں۔
جلسہ بکر منڈیوں میں کرتے ہیں تو تمسخر اڑایا جاتا ہے اور عوام پہنچ بھی نہیں پاتے ،لاہور کے جلسے نے ثابت کیا کہ پنجاب میں فی الوقت وہ افرادی قوت دستیاب ہی نہیں جو پارٹی کے کاز نمبر ایک کہ قیدی نمبر 804 کی رہائی کو آگے بڑھا سکے اور اگر پشاور میں کرتے ہیں تو اس کا وہ اثر نہیں ہوتا کیونکہ حکومت ہونے کے باعث لوگ اسے حکومتی وسائل کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ،نئے ڈی جی آئی ایس آئی ملک محمد عاصم کی تعیناتی پر یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ ہمارا مقابلہ سیاسی نہیں عسکری ہے ، بانی تحریک انصاف کو یہ سب سمجھانے کے بعد اور پنجاب پی ٹی آئی کی قیادت سے متنفر کرنے کے بعد علی امین گنڈا پور نے اگلا کامیاب نشانہ احتجاج کی سربراہی اپنے پاس رکھنے کا لگایا کہ کوئی بھی حکومت کسی دوسرے صوبے کے وزیر اعلیٰ کو تو گرفتار نہیں کرے گی بات لاجیکل تھی، اس لیے مان لی گئی لیکن اس ایک بات میں ہی اس احتجاج کو ناکام بنانے کی پلاننگ چھپی تھی ، علیمہ خان اس مظاہرے کی قیادت کرنا چاہتی تھیں اگر وہ مظاہرے کی قیادت کرتیں تو پنجاب کی وہ ساری قیادت جو آج بھی بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مخلص ہے وہ نکلتی مظاہرے کی لیڈر کو گرفتار کیا جاتا تو بانی کی بہن ، عورت کارڈ استعمال ہوتا اور بین الاقوامی پریشر میں اضافہ ہوتا کہ پاکستان میں لوگوں کو احتجاج نہیں کرنے دیا جارہا لیکن اب کیا ہوا ، گنڈا پور نے "پلان بی" کے نام پر جو ہے جہاں ہے کی بنیاد پر احتجاج ریکارڈ کرانے کا کہہ دیا یعنی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں ہونے والے احتجاج کو حکومت بھی کوریج کرنے دے گی ایک ٹکڑی کو لیاقت باغ پہنچنے دیا جائے گا اور دکھایا جائے گا کہ عوام قیدی 804 کی رہائی میں دلچسپی نہیں رکھتے ، احتجاج ناکام ثابت ہوگا لیکن دراصل یہ علیمہ خان کی ناکامی ہے اور گنڈا پور کی کامیابی ۔
اب ہے دوسرا سوال کہ کیا واقعی مریم کے چاچو (شہباز شریف ) کی حکومت جارہی ہے ، ایک مخصوص طبقہ یا لابی اس بیانیے کو گھر رہی ہے اور مجھے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ چند سرکاری میڈیا کے تنخواہ دار بھی اس مفروضے نما افواہی خبر کو تقویت دے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے جو کام لینا تھا لے لیا ، اقوام متحدہ اجلاس ہوچکا ، آئی ایم ایف کی قسطیں جاری ہو ہو گئیں ، بس ایک ترمیم ہے جو ہوئی تو "چاچو تو گئیو " ہنسی آتی ہے، اس وقت جو قومی حکومت قائم ہے، اس کا بدل کیا ہے کیا پیپلز پارٹی پنجاب میں ایسا دم خم رکھتی ہے کہ اُس کی حکومت بن سکے کیا اس کی عددی تعداد ایسی ہے کہ شہباز حکومت کو اسمبلی میں ٹف ٹائم دے سکے اور کیا پیپلز پارٹی سندھ سمیت اپنی قومی صدارت کو داو پر لگائے گی ، دوسری آپشن تحریک انصاف ہے اور کیا ہی برا آپشن ہوگا، یہ سیکورٹی اداروں کے لیے کہ بانی تحریک انصاف طالبانہ محبت میں گرفتار ہیں اور سیکیورٹی ادارے اس فتنے سے نبرد آزما ہیں ، اکانومی ہر گذرے دن کے ساتھ بہتر ہورہی ہے، مہنگائی کم تو نہیں ہوئی رک سی گئی ہے، مئی سے اب تک پیٹرول 60 روپے سستا ہوا ہے، مصنوعی مہنگائی پر بھی قابو پایا گیا ہے،موسم بدلتے ہیں، بجلی کے بلوں کے مزاج بھی بدل جائیں گے تو یہ سارے مفروضے اپنی موت آپ مر جائیں گے ،کل آرمی چیف نے بھی کہا کہ مایوسی پھیلانے والوں کو ناکامی ہوگی، معیشت بہتر سمت میں موو کر رہی ہے، یہ افواہ سازوں کو ہی پیغام ہے کہ اب کچھ ہونے والا نہیں اس وقت سب ایک پیج پر ہیں ۔
اب آئیں نواز شریف کے دورہ لندن و امریکہ جس پر میڈیائی مہم چلائی گئی ن لیگ کے رہنما کو ایک بار پھر بھگوڑا کہا جانے لگا یہ صرف ہیلتھ کے حوالے سے چیک اپ کے لیے ایک دورہ تھا لیکن اسے بھی صرف اور صرف اس لیے موخر کردیا گیا کہ اگلے چند روز میں وہ آئینی ترمیم جس کو پاس کرانے کے لیے حکومت کو ایک ایک ووٹ قیمتی نظر آتا ہے، ہونے جارہی ہے مولانا فضل الرحمٰن سے نیم رضامندی حاصل کرلی گئی ہے اس لیے نواز شریف اکتوبر کے پہلے ہفتے میں اس اہم ترمیم کے جس میں نئی آئینی عدالت بنے گی جس کے بعد ہی دورہ لندن و نیویارک کریں گے ۔