ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

حماس نے غزہ میں جنگ بندیپر رضامندی ظاہر کر دی

Gaza war, Hezbollah and Hamas, Lebanon War , Ceasefire in Gaza, City42
کیپشن: غزہ مین جنگ بندی کے لئے دنیا کا اور اسرائیل کے اندر عوام کا دباؤ اب پہلے سے زیادہ ہے لیکن جنگ بندی میں رکاوٹ حماس اور اس کے دشمن انتہائی دائیں بازو کے یہودی سیاستدان ہیں جو گزشتہ نومبر کے بعد سے اب تک ٹیبل پر کسی نتیجہ پر پہنچنے کی بجائے ایک دوسرے کو گرتا اور پھنستا دیکھنے کے لئے غزہ اور اسرائیل کے عوام کے مصائب کو طول دینے میں کوئی تردد نہیں کرتے۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  حماس نے غزہ میں جنگ بندیپر رضامندی ظاہر کی ہے۔ حماس کی طرف سے یہ پیش رفت لبنان جنگ بندی کے پہلے ہی روز سامنے آئی ہے۔ 
غزہ کی جنگ کے  دوسرے فریق حماس  کا کہنا ہے کہ وہ 'سنجیدہ  ڈیل' کے لیے تیار ہے،  حماس نے اب تک جنگ بندی مذاکرات میں پیشرفت نہ ہونے کا  ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا۔ اسی دوران اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کے یاستدان اور  نیتن یاہو حکومت میں وزیر بین گویر نے ایک یرغمال ماں سے کہا کہ وہ اس معاہدے کو روک دے گا جس میں '1,000 "سنوار'  کی رہائی شامل ہو۔   

Caption    اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے دوران 27 نومبر 2024 کو وسطی غزہ میں نوصیرات کیمپ میں اسرائیلی فضائی حملے کے مقام پر فلسطینی نقصان کا معائنہ کر رہے ہیں۔ (تصویر از ایاد بابا / اے ایف پی)

حماس نے بدھ کو اشارہ کیا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے تیار ہے.  "ہم نے مصر، قطر اور ترکی میں ثالثوں کو مطلع کیا ہے کہ حماس جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک سنجیدہ معاہدے کے لیے تیار ہے،" حماس کے ایک سینیئر اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا. 

حزب اللہ جس نے جنوبی اسرائیل میں حماس کے قتل عام کے ایک دن بعد 8 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر راکٹ داغنا شروع کیے تھے، اس کی قیادت نے ابتدائی طور پر اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اسرائیل سے اس وقت تک لڑنا بند نہیں کرے گی جب تک کہ اسرائیل کی حماس کے خلاف جنگ نہ ہو جائے۔ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ حماس کی طرف سے اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے ساتھ غزہ کا کنٹرول حماس کو واپس کرنے اور اسرائیلی جیلوں مین قید سنگین جرائم میں ملوث افراد کی حوالگی جیسے مطالبات کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ اس دوران اسرائیل کے اندر یرغمالیوں کی واپسی کے لئے کسی بھی قیمت کے عوض معاہدہ کرنے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے لیکن اسی قدر حماس کو سپیس دینے اور اسے غزہ کا کنٹرول لوٹانے کے ساتھ اسرائیل کے  خلاف جرائم میں ملوث افراد کو رہا  کر کے حماس کے حوالے کرنے کی بھی مزاحمت ہو رہی ہے۔ 

ایران، جو  حماس اور حزب اللہ دونوں کا سب سے بڑا حمایتی ہے،  اس نے بھی لبنان کی جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے غزہ سے نہیں جوڑا ہے۔ اس دوران حماس عملاً اس قیادت سے محروم ہو چکی ہے جس نے غزہ کی جنگ چھیڑی اور جس نے حماس کو سات اکتوبر جیسا پیچیدہ آپریشن کرنے کی حد تک پہنچایا تھا۔ اب حماس کی قیادت درحقیقت کس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی نہیں جانتا، بظار پانچ افراد کا ایک گروپ باہمی مشاورت سے اسے "چلا" رہا ہے لیکن اب اس قیادت کے پاس کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ جنگ بندی کی طرف جانے کے لئے حکمت عملی طے کریں، یا اگر ایسا پسند نہ کریں تو اپنے رہنے کے لئے جگہ تلاش کریں کیونکہ قطر سے انہیں  ترکی منتقل ہونا پڑا اور وہاں وہ قطر جیسے محفوظ نہیں ہیں۔ 

لبنان جنگ بندی کے بعد تصور کرنا کہ چند ہی گھنٹے مین حماس دباؤ مین آ گئی ہو  گی کچھ زیادہ عجلت پسندانہ ہے کیونکہ سات اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد سے حماس کی قیادت کو حزب اللہ کے اسرائیل پر روزانہ برسائے گئے راکتوں سے عملاً کوئی ریلیف نہیں ملا کیونکہ اسرائیل نے غزہ کے اندر حماس کے کسی ٹھکانے کو ادھیڑنے میں کبھی کسی مصلحت کو آرے نہین آنے دیا، یہاں تک کہ اس نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ روزانہ گر رہے فوجیوں کی گنتی چھپانے کا بھی تردد نہیں کیا۔

حماس کے ایک سینئر عہدیدار  سامی ابو زہری نے حزب اللہ کے الگ معاہدے پر دستخط کرنے کے متعلق کچھ روز سے پروموٹ کئے جا رہے نیریٹیو کے برعکس  کہا،  "حماس لبنان اور حزب اللہ کے ایک ایسے معاہدے تک پہنچنے کے حق کو سراہتی ہے جس سے لبنان کے عوام کو تحفظ حاصل ہو اور ہمیں امید ہے کہ یہ معاہدہ ایک ایسے معاہدے تک پہنچنے کی راہ ہموار کرے گا جس سے غزہ میں ہمارے لوگوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ ختم ہو جائے"۔ 

Caption   بدھ،27، 2024 نومبر کو، اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے بعد، لبنان کے شہر بیروت میں بے گھر باشندوں کے دحیہ واپسی پر ایک عورت اپنی روتی ہوئی بیٹی کو گلے لگا رہی ہے۔

ابو زہری نے جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے میں پچھلی ناکامیوں کا ذمہ دار وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو  کو قرار دیا  جو خود  حماس پر جنگ بندی کی کوششوں کو ناکام بنانے کا بار بار الزام لگا چکے ہیں۔


ابو زہری نے کہا کہ "حماس نے معاہدے تک پہنچنے کے لیے "بہت زیادہ لچک دکھائی"  اور وہ اب بھی اس پوزیشن پر قائم ہے اور غزہ میں جنگ کو ختم کرنے والے معاہدے تک پہنچنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔"

ابوزہری نے دعویٰ کیا کہ ’’مسئلہ ہمیشہ نیتن یاہو کے ساتھ تھا جو ہمیشہ کسی معاہدے تک پہنچنے سے بچتے رہے‘‘۔

جنگ بندی پر بات چیت کی کئی مہینوں کی کوششوں میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے اور مذاکرات اب رکے ہوئے ہیں، ثالث قطر نے کئی ہفتے پہلے  دونوں فریقوں سے کہہ دیا  کہ وہ اپنی کوششیں اس وقت تک معطل رکھے گا جب تک فریقین  واقعی مصالحت پر  تیار نہیں ہوتے۔

پچھلے ہفتے، سینئر اسرائیلی دفاعی عہدیداروں نے کہا کہ ابھرتے ہوئے اشارے مل رہے ہیں کہ حماس اب ایک معاہدے کے لیے سوچ رہا ہے جس میں "جنگ کا مکمل خاتمہ"  اور  "مکمل اسرائیلی انخلا" کی شرطیں شامل نہیں ہوں گی۔  یہ مطالبےجنگ بندی معاہدے تک پہنچنے کی سابقہ ​​کوششوں کو  غیر مؤثر کرتے رہے ہیں۔   

غزہ کے اندر، کچھ فلسطینیوں نے محتاط امید ظاہر کی ہے کہ لبنان کا معاہدہ غزہ میں لڑائی کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، دوسروں نے کہا کہ وہ لاوارث اور نتائج سے خوفزدہ محسوس کرتے ہیں کیونکہ "اسرائیل اب غزہ پر اپنی پوری توجہ مرکوز کرے گا۔ " 

اسرائیل کے لئے بھی یہ ایک سوال ہے کہ اگر جنگ بندی نہیں تو وہ لبنان سے فارغ ہونے کے بعد غزہ میں کرنا چاہے بھی تو کیا کر سکے گا۔ یرغمالیوں کی تلاش کے لئے وہ پہلے ہی اپنے تمام انتیلیجنس وسائل کو بروئے کار لا رہا ہے اور درحقیقت اس کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتا۔  یرغمالیوں کی واپسی میں مزید تاخیر نیتن یاہو کی ھکومت کے لئے مسائل کو مصائب میں بدل دینے کا خطرناک پوٹینشل رکھتی ہے، کیونکہ جنگ میں اب ایسا کوئی ہدف نہیں رہا جس کو قومی مفاد قرار دے کر یرغمالیوں کی فوری واپسی کے متمنی ان کے رشتہ داروں اور ان کے حامیوں کو جذباتی بلیک میل کیا جا سکے۔

غزہ کی جنگ کے ضمن میں اسرائیل اور باقی ماندہ حماس دراسل ایک ہی طرح  درجہ کے تاہم بظاہر مختلف نوعیت کے دباؤ کا شکار ہیں۔ 

"صورتحال بدتر ہو جائے گی، کیونکہ غزہ پر دباؤ زیادہ ہو گا،" ممدوح یونس، جو اس وقت جنوبی شہر رفح سے بے گھر ہونے کے بعد خان یونس میں رہ رہے ہیں،  انہوں نے ایک غیر ملکی نیوز  ایجنسی کو  بتایا۔


اسرائیل اور حماس کے درمیان فلسطینی علاقے میں جاری جنگ کے درمیان، 27 نومبر 2024 کو وسطی غزہ کے نوصیرات کیمپ میں فلسطینی ایک بیکری کے باہر روٹی کا انتظار کر رہے ہیں۔ (تصویر از ایاد بابا / اے ایف پی)
"وہ ایک جگہ جنگ بندی پر متفق ہیں اور دوسری جگہ نہیں؟ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں پر رحم فرمائیں۔ ہم خیموں میں بیٹھے ہیں اور اب موسم سرما ہے،" غزہ شہر سے بے گھر ہونے والی ایک خاتون، احلام ابو شلابی نے نیوز ایجنسی کے نمائندے سے  کہا۔ اعلام یہ ہی بات شاید حماس کی قیادت سے بھی کہنا چاہتی ہوں لیکن پیچیدگی یہ ہے کہ حماس کا کوئی بھی نمائندہ عام طور پر فلسطینیوں کے مصائب سننے کے لئے سامنے موجود نہیں ہوتا۔

بیشتر فلسطینی بے گھر یہ سمجھتے ہیں کہ حماس کے ٹوٹے پھوٹے غزہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے سے لے کر اسرائیل کی جیلوں سے مفت تربیت یافتہ نفری کے حصول تک تمام مطالبات غیر حقیقت پسندانہ ہیں اور ان کی قیمت  صرف غزہ کے بے گھر  فلسطینی ہی نہیں بلکہ فلسطین کے جنگ سے بظاہر دور علاقوں میں مقیم فلسطینی، اسرائیل کے عام شہری اور دنیا کے غربت کی لکیر سے نیچے جی رہے بہت سے لوگ یکساں طور پر ادا کر رہے ہیں۔ 

حماس کے زیرانتظام غزہ کی وزارت صحت کا دعویٰ ہے کہ غزہ  پٹی میں اب تک 44,000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہی۔ اسرائیل ان ہلاکتوں کی تعداد پر بھی سوال اٹھاتا ہے اور یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ حماس کے مرنے والے جنگجو بھی انہی مرنے والوں میں شامل ہیں۔  

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل کے اندر تقریباً 18,000 جنگجووں اور 1,000 دہشت گردوں کو جنگ میں ہلاک کیا ہے۔ گویا فلسطینی میڈیکل پروفیشنلز کی بتائی ہوئی اموات مین سے آدھے سے کچھ کم حماس کے کارکن تھے اور باقی ماندہ عام شہری جن میں بچے اور عورتین زیادہ تھے۔ 

 اسرائیل نےہمیشہ  کہا ہے کہ وہ جنگ کے دوران شہریوں کی ہلاکتوں کو کم سے کم کرنا چاہتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ حماس غزہ کے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے، گھروں، ہسپتالوں، اسکولوں اور مسجدوں سمیت شہری علاقوں سے لڑ رہی ہے۔  لیکن اسرائیل کے اس عذر کو انترنیشنل کریمینل کورٹ جیسے فورم پر مناسب طریقے سے زیر غور ہی نہیں لایا گیا نہ ہی اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے تقریباً تمام لوگ اسے عذر کی حیثیت سے کنسیڈر کرتے ہیں۔  اس جنگ کا خطرناک پہلو یہ بھی رہا ہے کہ "دہشت گرد" قرار پائے، اور مسلمہ طور پر جارح اور اغوا کار گروپ کو شہری آبادیوں کے اندر رہ کر لڑنے کی آزادی ہی نہیں ملی بلکہ اسے ایسی جنگ کے لئے عام انسانوں کی حمایت بھی ملی جس کا اظہار امریکہ اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں کے ٹیچرز سے لے کر سٹوڈنٹس تک اور آئی سی سی کے فورم تک ہر جگہ ہوا۔

دباؤ میں اضافہ
اسرائیل کے اندر صورتحال یہ ہے کہ نیتن یاہو کی ھکومت حزب اللہ کے گلے پر ناخن رکھ چکنے کے بعد اسے مکمل بے بس کئے بغیر چھوڑ دینے کا جواز یہ پیش کر رہی ہے کہ اس جنگ بندی سے اسے حماس کے خلاف غزہ مین توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملے گی حالانکہ دونوں جنگ کے محاذوں پر اسرائیل کی افرادی قوت ایک دوسرے کی متبادل نہیں ہے۔ تاہم حزب اللہ کے ساتھ زمینی جنگ کے کچھ ہفتوں میں جان ینقصٓن غزہ میں ہونے والے جانی نقصان سے تناسب میں  کہیں زیادہ ہے۔ اور غالباً یہ نقصان ہی جنگ بندی کی اصل قوتِ محرکہ ہے۔

اس منگل کو تقریر کرتے ہوئے نیتن یاہو  نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے لبنان کے ساتھ معاہدے پر رضامندی ظاہر کی ہے  کہ اس جنگ بندی کے بعد " فوج غزہ میں دباؤ میں اضافہ کرے گی،" اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہوئے کہ " جنگ بندی کی ایک بڑی وجہ محاذوں کو الگ کرنا اور حماس کو تنہا کرنا ہے۔"  

یہ بتاتے ہوئے نیتن یاہو نے اس فیکٹ کو فراموش کئے رکھا کہ ان پر داخلی دباؤ غزہ میں فوج کی حماس کے خلاف،  کافی سے زیادہ مؤثر ، جنگ کے کم مؤثر ہونے کے سبب نہیں بلکہ ٹیبل پر ہونے کے باوجود ٹیبل سے کچھ حاصل کئے بغیر اٹھا ٓنے کے سبب ہے جو یقیناً فوج کی اسائنمنٹ نہیں تھا۔ 

 نیتن یاہو نے کہا، "جنگ کے دوسرے دن سے، حماس حزب اللہ پر اعتماد کر رہی تھی کہ وہ اس کے شانہ بشانہ لڑے۔ حزب اللہ کی تصویر سے باہر ہونے سے حماس اپنے آپ پر رہ گئی ہے۔ ہم حماس پر  دباؤ بڑھائیں گے اور یہ ہمارے یرغمالیوں کی رہائی کے مقدس مشن میں ہماری مدد کرے گا،''۔

"غزہ میں، ہم نے حماس کی بٹالین کو ختم کیا اور 20,000 کے قریب دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ ہم نے [حماس کے رہنما یحییٰ] سنوار کو مار ڈالا، ہم نے [فوجی سربراہ محمد] ڈیف کو مار ڈالا، ہم نے حماس کے سینئر عہدیداروں کو ہلاک کیا اور ہم نے 154 یرغمالیوں کو واپس لایا۔ ہم ان سب کو گھر واپس لانے کے لیے پرعزم ہیں، غزہ میں اب بھی 101 یرغمال ہیں، جو اب بھی زندہ ہیں اور مردہ ہیں، اور ان کے اہل خانہ کی خوفناک پریشانی کو ختم کریں گے۔ ہم یقیناً حماس کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘

اسرائیل میں، یرغمالیوں کے خاندانوں کی امیدوں کو_   کہ اسرائیل اب حماس کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے، اس وقت شدید دھچکا لگا جب انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کسی بھی ایسے معاہدے کو ویٹو کر دیں گے جس میں فلسطینی سکیورٹی قیدیوں کی بڑے پیمانے پر رہائی ہو گی۔ یرغمالیوں کے بدلے میں۔

بین گویر اور  ان کےساتھی انتہائی دائیں بازو کے وزیر بیزائل سموترچ  طویل عرصے سے غزہ معاہدے کی اجازت دینے کی صورت میں نیتن یاہو کی  حکومت کو گرانے کی دھمکی دے رہے ہیں، اور اسرائیل پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس پٹی پر قبضہ نہ چھوڑے اور ممکنہ طور پر وہاں یہودیوں کی بستیاں دوبارہ قائم کرے۔

Caption   اینو زنگاؤکر 27 نومبر 2024 کو نیسٹ میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے دوران خطاب کر رہی ہیں۔

اتمار بین گویر بدھ کے روز غزہ میں یرغمال بنائے گئے ایک شہری  کی ماں کے ساتھ گرما گرم بحث میں پڑ گیا جب اس خاتون  نے اس پر الزام لگایا کہ وہ وہاں قیدیوں کی قسمت سے زیادہ اس غزہ  پٹی میں بستیاں بسانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

کنیسیٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر کے ساتھ جھگڑا کرتے ہوئے، یرغمالی متان زاونگاؤکر کی والدہ ایناو زانگاؤکر نے کہا کہ "کل آپ نے کہا تھا کہ یرغمالیوں کو تھوڑا صبر کی ضرورت ہے،" 

منگل کی شام، بین گویر سے چینل 12 کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران یرغمالیوں کے معاہدے کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو بین گویر نے جواب دیا کہ "ہمیں حماس کو گھٹنے ٹیکنے کے لیے کچھ صبر کی ضرورت ہے۔"

زنگاؤکر، جو حکومت کی ایک سرکردہ نقاد ہیں، نے کہا کہ یرغمالی جو  اب زندہ نہیں ہیں، درجنوں میٹر زمین کے نیچے دفن کر دیے گئے ہیں، لیکن بین گویر اس زمین پر سڑکیں اور قصبے بنانا چاہتے ہیں "اور یرغمالیوں کو  دفنانے کے لیے گھر لائے بغیر ان کے خون سے غزہ میں نئی بستیاں  آباد کرنا چاہتے ہیں۔"

"یہ یہودی اقدار نہیں ہیں،"  زنگاؤکر نے زور دے کر کہا ، جب بین گویر نے اپنا سر ہلایا تو خاتون تکلیف دہ نظر آ رہی تھیں، انہوں نے مزید کہا،  "یرغمالی جسم اور روح میں تکلیف میں ہیں اور آپ اسے جاری رکھنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ یرغمالیوں کو چھڑانے اور یکجہتی کے لیے آپ کی فریاد کہاں ہے؟  آپ یرغمالیوں کے عوض معاہدے پر راضی کیوں نہیں؟"


یہ پوچھے جانے پر کہ وہ اس زخمی ماں کے بیٹے کو کب تک قید میں رہنے  دیں گے اور کیوں ان کا خیال ہے کہ یرغمالیوں کا معاہدہ خطرناک ہو گا، بین گویر نے اپنے جواب کو ایک اور ایموشنل بلیک میلنگ کی شیلڈ کے پیچھے چھپاتے ہوئے  جواب دیا کہ" 7 اکتوبر کا ماسٹر مائنڈ یحیٰ سنوار  2011 میں حماس کے پاس موجود  گرفتار فوجی گیلاد شالیت کے معاہدے کے دوران رہا کیا گیا تھا اور یہ کہ ایک نئے معاہدے کا نتیجہ بھی اسی طرح ہوگا۔ خطرناک دہشت گردوں کی رہائی۔

اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ "یرغمالیوں کی رہائی کے لیے سب کچھ کرے لیکن اسرائیلی شہریوں کی زندگیوں کی بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ میں کسی بھی حالت میں 1,000 سنواروں کی رہائی کی اجازت نہیں دوں گا،" بین گویر نے نعرہ لگانے کے انداز سے یہ سب کچھ اس ماں سے کہا جس کا بیتا چودہ ماہ سے حماس کی قید میں ہے۔ 

خیال کیا جاتا ہے کہ حماس کے ہاتھوں 7 اکتوبر کو اغوا کیے گئے 251 یرغمالیوں میں سے 97 غزہ میں موجود ہیں، جن میں کم از کم 34 کی لاشیں شامل ہیں جن کی IDF نے تصدیق کی ہے۔ حماس نے 2014 اور 2015 میں پٹی میں داخل ہونے والے دو اسرائیلی شہریوں کے ساتھ ساتھ 2014 میں ہلاک ہونے والے دو IDF فوجیوں کی لاشیں بھی اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں۔

دراصل تو اتمار بین گویر کا یہ جواب ظالمانہ اور غیر مہذب ہی تھا اور حماس کے ساتھ معاہدہ کے لئےٹیبل پر بیٹھنے سے پہلے خود حماس کو جیلوں میں قید افراد کی حوالگی کے  زبردست ہتھیار کی اہمیت سے آگاہ کرنا عجیب ہے