بینکوں میں رقوم رکھوانے والوں کیلئے بڑی خوشخبری آگئی

28 Nov, 2022 | 06:56 PM

Abdullah Nadeem

ویب ڈیسک: رواں مالی سال کے پہلے 65 ماہ کے دوران بینکوں کے ڈیپازٹس میں 2020 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جنوری تا جون 2022) کے دوران بینکاری کے شعبے کی کارکردگی سے متعلق جائزہ رپورٹ جاری کردی ہے۔رپورٹ میں مالی منڈیوں اور مائیکروفنانس بینکوں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ نظامیاتی خطرے کے سروے کے نتائج کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو مالی استحکام کو لاحق اہم خطرات کے بارے میں آزاد ماہرین کی رائے پر مبنی ہے۔

جائزے میں کہا گیا ہے کہ 2022ء کی پہلی ششماہی کے دوران پائیدار معاشی سرگرمی سے بینکاری کے شعبے کی بیلنس شیٹ میں 16 فیصد توسیع میں مدد ملی۔ اثاثوں کی بنیاد میں مضبوط اضافے کا اہم محرک نجی شعبے کے قرضوں کے بہاؤ اور سرمایہ کاریوں خصوصاً حکومتی تمسکات میں اضافہ تھا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھاری مقدار میں ڈپازٹس جمع کرنے کے علاوہ توسیع شدہ بیلنس شیٹ کو فنانس کرنے میں بینکوں کے قرضوں پر انحصار میں خاصا اضافہ ہوگیا۔

رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران بینکوں میں جمع کرائی گئی رقوم میں گزشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں 9.3 فیصد اضافے کے ساتھ 2 ہزار 20 ارب (20 کھرب 20 ارب) روپے کا اضافہ ہوا۔جائزہ رپورٹ میں بینک ڈپازٹس میں اضافے کی بڑی وجہ بیرون ملک سے بھجوائی گئی ترسیلات زر، دالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی قدر، سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے روشن پاکستان اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری، ای بینکنگ کی بڑھتی شرح اور گندم کی امدادی قیمت بڑھنے کو قرار دیا گیا ہے۔

2022ء کی پہلی ششماہی کے دوران نجی شعبے کے قرضوں کی نمو کی رفتار گذشتہ تین برسوں کی تقابلی مدت میں بلند ترین تھی۔ 2022 کی پہلی ششماہی کےدوران مینوفیکچرنگ سرگرمی میں بہتری، جس کی عکاسی بڑے پیمانے کی اشیا سازی کے انڈیکس میں دو ہندسی (double-digit) نمو سے ہوتی ہے، خام مال کی بلند قیمتوں اور اسٹیٹ بینک کی ری فنانس اسکیموں نے قرضوں کے مجموعی بہاؤ کو بڑھانے میں کردار ادا کیا۔

لوگوں نے انفرادی طور پر اور چینی کے شعبے نے بینکوں سے قرضوں کا بڑا حصہ حاصل کیا جس کے بعد ٹیکسٹائل شعبے کا نمبر آتا ہے۔

نمو کی قابل ذکر کارکردگی کے علاوہ بینکوں کے اثاثہ جاتی معیار کے اظہاریوں ( indicators ) میں مزید بہتری آ ئی۔ خام غیر فعال قرضوں (این پی ایل) کا تناسب آخر جون 2022 تک کم ہو کر 7.5 فیصد ہو گیا، جو آخر دسمبر 2021 میں 7.9 فیصد تھا۔ تاہم، ملک کے کئی حصوں میں حالیہ تباہ کن سیلاب بینکوں سے زرعی قرضہ لینے والوں اور مائیکروفنانس قرض گیروں کی قرض واپسی کی صلاحیت کو متاثر کر سکتے ہیں۔

جائزے میں یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ آمدنیوں میں طاقتور نمو کے باوجود نفع بابی کے اساسی اظہاریوں میں اعتدال آیا، جس کی بنیادی وجہ عائد کردہ ٹیکس میں تیزی سے اضافہ ہے۔ بینکوں کی شرحِ کفایتِ سرمایہ ( CAR ) اثاثوں اور قرضوں میں تیز رفتار نمو کی بنا پر گر کر 16.1 فیصد ہوگئی۔ تاہم اس سے قطع نظر، مذکورہ شرح کم از کم ضوابطی تقاضوں (یعنی 11.5 فیصد) سے خاصی اوپر رہی اور بینکوں کے پاس بحیثیتِ مجموعی مناسب بفر (buffer) اور وہ لچک (resilience) موجود ہے جو انہیں معاشی صورتِ حال کے شدید دباؤ اور خطرات کے اہم عوامل کے اثرات سے بچا سکتی ہے۔

اس جائزے میں مارکیٹ کے آزاد شرکا کے احساسات پر مبنی ’ایس آر ایس‘ کے دسویں مرحلے (جولائی 2022ء) کے نتائج کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ مالی نظام کو لاحق بیشتر خطرات بیرونی نوعیت کے ہیں، یعنی عالمی اور کلی معاشی خطرات تاہم رائے دہندگان کی اکثریت نے مالی نظام کے استحکام پر اعتماد ظاہر کیا۔ملک کے بہت سے علاقوں میں تباہ کن سیلاب بینکوں اور مائیکرو فنانس کے زرعی قرض داروں کی ادائیگی قرض کی صلاحیت پر اثر ڈال سکتا ہے، اور اسی طرح دورِ ثانی کے اثرات کے طور پر دیگر قرض داروں کی بھی ادائیگی قرض کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔

جائزے میں کہا گیا ہے کہ بینکوں کے ساتھ مائیکرو فنانس بینکوں کو بھی چاہیے کہ قرض گاری کے پورٹ فولیو پر ممکنہ اثرات کا محتاط طریقے سے تجزیہ کریں اور اثاثوں کے معیار نیز اپنے اداروں کے مالی استحکام کی لچک برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔

مزیدخبریں