تحریر،احمد منظور:پاکستان یوں تو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی دوڑ میں بھارت کے بہت بعد میں شامل ہوا ، لیکن ریاست پاکستان اور اس کے سائنسدانوں و انجینئرز کی شبانہ روز کاوشوں کی وجہ سے وہ اس معرکے میں بھارت سے آگے نکل گیا ہے ، پاکستان کے پاس موجود ایٹمی ہتھیار نہ صرف اپنی جدت اور ٹیکنالوجی میں بھارت سے بہت بہتر ہیں بلکہ تعداد میں بھی اس سے زیادہ ہیں ، دنیا میں اس وقت امریکہ ، روس ، چین ، برطانیہ ، فرانس ، پاکستان ، بھارت ، اسرائیل اور شمالی کوریا کل 9 ایٹمی طاقتیں ہیں ان میں سے چار چین ، پاکستان ، بھارت اور شمالی کوریا اپنے ایٹمی اسلحہ خانے میں مسلسل اضافہ کر رہی ہیں ، دنیا کے 90 فیصد سے زیادہ ایٹمی ہتھیار صرف 2 ممالک امریکہ اور روس کے پاس ہیں جن کی تعداد بالترتیب 5100 اور 5600 ہے ، چین کے پاس 500 ، فرانس کے پاس 290 ، برطانیہ کے پاس 225 ، پاکستان کے پاس 175 ، بھارت کے پاس 165 ، اسرائیل کے پاس 90 اور شمالی کوریا کے پاس 50 ایٹم بم ہیں ۔
پاکستان نے ابابیل اور نصر میزائل سسٹمز اپنے ایٹمی اسلحہ خانے میں شامل کرکے ڈلیوری سسٹم میں بھی بھارت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ، اس لیئے اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان نہ صرف ایٹمی اسلحہ کی تعداد اور جدت کے حوالے سے ایٹمی کلب میں چھٹے نمبر پر ہے بلکہ ڈلیوری سسٹم کی جدت اور ناقابل شکست میزائلوں کے اعتبار سے بھی دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے ، یوں بے پناہ معاشی دباؤ کا شکار رہنے کے باوجود پاکستان کا ایٹمی کلب میں بھارت سے آگے نکل جانا اللہ رب العزت کا خاص کرم اور ہمارے ایٹمی و میزائل پروگرام سے منسلک سائنسدانوں ، انجینئرز اور عسکری قیادت کی خصوصی توجہ اور محنت کا ثمر ہے۔
پاکستان کے ایٹمی و میزائل پروگرام کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس میں بڑی پیش رفت دو منتخب جمہوری حکومتوں کے دور میں ہوئی لیکن عملی کام دو مارشل لاؤں میں انجام دیا گیا ، ایٹمی پروگرام کا آغاز اور اسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کے حوالے کرنے کا بڑا فیصلہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں ہوا تو 28 مئی 1998ء کو چاغی میں ایٹمی دھماکے کر کے مسلمہ ایٹمی طاقت کا اعزاز پانے کا فیصلہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دور حکومت میں کیا گیا ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں اصل پیش رفت سابق فوجی صدر ضیاء الحق کے دور حکومت میں ہوئی اور پاکستان 1983ء سے 1985ء کے درمیان عملاً ایٹمی طاقت بن چکا تھا اور جب سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے نومبر 1986ء میں "آپریشن براس ٹیک" کے نام سے پاکستان کی سرحد پر پانچ لاکھ فوج جمع کر کے بڑے حملے کا منصوبہ بنایا تو سابق صدر جنرل ضیاء الحق کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے بھارت گئے اور راجیو گاندھی کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دے کر رحیم یارخان پر بڑا حملہ کر کے پاکستان کو دو حصوں میں کاٹنے کے بھارتی منصوبے پر پانی پھیر دیا ، یہ واقعہ ضیاء الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی کے نام سے مشہور ہے ۔
جس طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں حقیقی معنوں میں بڑی پیش رفت فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ہوئی ، اسی طرح پاکستان کے میزائل پروگرام میں بڑی پیش رفت سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ہوئی ، جب غوری اور شاہین میزائلوں کے پے درپے تجربات کے ذریعے پاکستان نے اپنے ڈلیوری سسٹم کو فنکشنل کر لیا ۔ 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کیلئے پاکستان کو جو پرکشش معاشی پیکج پیش کیئے گئے ، اسی طرح کے پیکج ضیا اور مشرف دور میں بھی پیش کیئے جاتے رہے لیکن پاکستان نے کبھی بھی ان پیشکشوں پر توجہ نہیں دی ، معاشی خوشحالی کیلئے پرکشش پیشکشوں کے بدلے میں یوکرین نے اپنے ایٹمی اثاثوں سے دستبردار ہونے کا جو فیصلہ کیا اس کی وجہ سے اس پر بار بار خوفناک جنگیں مسلط کی جا رہی ہیں ، اس لیئے یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ تاریخ کا سبق ہے کہ جس ملک کی ہمسایہ ریاست بڑی ایٹمی طاقت ہو اس کی سلامتی جوابی ایٹمی طاقت بنے بغیر ممکن نہیں ، خدا کا شکر ہے کہ 28 مئی 1998ء کو جب فیصلے کی گھڑی آئی تو پاکستان کی جمہوری و عسکری قیادت نے وہ فیصلہ کیا جس نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا اور پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی مسلمہ ایٹمی طاقت بن گیا ، اور پھر دو ڈھائی عشروں کے بعد الحمدللہ پاکستان اس وقت ایٹمی و میزائل پروگرام کی قوت کے اعتبار سے بھارت کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی چھٹی بڑی ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔
بھارت نے 11 مئی 1998ء کو راجھستان کے علاقے پوکھران میں آپریشن شکتی کے نام سے علانیہ ایٹمی دھماکے کر کے خود کو دنیا کی چھٹی مسلمہ ایٹمی طاقت ڈیکلیئر کر دیا ، اسے پوکھران2 بھی کہا جاتا ہے ، پاکستان نے اس کے جواب میں 17 روز بعد 28 مئی کو چاغی میں جوابی ایٹمی دھماکے کر کے منہ توڑ جواب دیا ، پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کیلئے امریکہ سمیت عالمی برادری کی طرف سے بےپناہ دباؤ ڈالا گیا ، معاشی پابندیاں لگا کر ملک کو دیوالیہ کر دینے کی دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن اس وقت کی جمہوری و عسکری قیادت نے کمال جرات مندی و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی دباؤ میں آنے سے صاف انکار کر دیا ، پوری قوم اس فیصلے میں اپنی جمہوری و عسکری قیادت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہو گئی تھی ۔
پاکستان کے ایک مسلمہ ایٹمی طاقت بننے کا طویل سفر 28 مئی 1998ء کو ایک نئے دور میں داخل ہو گیا کیونکہ پھر شروع ہو گئی ایک نئی دوڑ ، اور وہ دوڑ تھی ایک پائیدار اور ناقابل شکست ڈلیوری سسٹم کی ، کیونکہ جس شہسوار کے پاس بےمثال گھوڑا نہ ہو وہ جنگ میں اپنی شجاعت کے جھنڈے نہیں گاڑ سکتا ۔
پاکستان اور بھارت کے روایتی بیلسٹک میزائل نظام ایک وقت میں ایک ایٹم بم لے جانے کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے ، بھارت نے اسرائیل کی مدد سے آئرن ڈوم میزائل شکن نظام کی تیاری شروع کی تو پاکستان کے روایتی میزائل کے سو فیصد مؤثر ہونے پر سوالیہ نشان لگ گیا ۔ بھارتی اقدام نے ڈرامائی طور پر نئی ضرورت پیدا کردی تھی، چنانچہ پاکستان نے کثیر الاہداف میزائل نظام پرکام شروع کر دیا جس میں ابابیل میزائل سسٹم کو کلیدی حیثیت حاصل تھی
ابابیل میزائل نظام ایک وقت میں کئی اسمارٹ ایٹم بم لے جا سکتا ہے، ایک خاص بلندی پر پہنچ کر یہ وقفے وقفے سے اسمارٹ ایٹم بم مطلوبہ بلندی سے گرا سکتا ہے۔ جبکہ ہر ایٹم بم کا ہدف مختلف ہوتا ہے اور ہر ایٹم بم آزادانہ طور پر دشمن کے میزائل شکن نظام کو ناکام بنا کر آگے بڑھتا ہے۔ ان صلاحیتوں کو میزائل سازی کی اصطلاح میں میزائل انڈیپینڈنٹ ری انٹری وہیکل (MIRV) اور انٹیلی جنٹ ری انٹری وہیکل (IRV) کہا جاتا ہے ۔ یہ ایسی صلاحیت ہے جو صرف امریکا ، برطانیہ ، روس ،چین اور فرانس کے پاس ہے۔ یوں اس جدید ترین ٹیکنالوجی میں بھی پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے
الحمدللہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام بھی آج بھارت کے مقابلے میں زیادہ مہلک ٹیکٹیکل و اسٹریٹجک ایٹمی ہتھیار تیار کر رہا ہے تو ساتھ ہی ڈلیوری سسٹم میں بھی ہم بھارت سے بہت آگے ہیں ، ابابیل میزائل کے بعد پاکستان کا ایک اور ناقابل شکست میزائل نصر ہے ، جو خاص طور پر میدان جنگ میں اسمارٹ ایٹم بم استعمال کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے ،
نصر یا حتف نہم پاکستان کے ایٹمی اسلحہ خانے کا سب سے خطرناک میزائل قرار دیا جاتا ہے جو زمین سے زمین تک مار کرتے ہوئے 70 کلومیٹر کی حدود میں جوہری ہتھیار اپنے ساتھ لے جانے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس میزائل کو روکنا بھارتی میزائل شکن نظاموں کیلئے ناممکن ہے ۔ یہ ٹیکنالوجی بھی دنیا کے صرف چند ممالک کے پاس ہے۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ممالک میں پاکستان کا دنیا میں امریکہ ، روس اور چین کے بعد چوتھا نمبر ہے ۔
28 مئی 1998 کا یوم تکبیر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ان کی ٹیم کے انجینئرز اور ہنرمندوں کی قربانیوں کا ثمر ہے تو اس پروگرام کو دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رکھنے ، فول پروف سکیورٹی اور عالمی مارکیٹ سے ضروری حساس آلات اور پرزوں کی سپلائی بھی کوئی آسان کام نہیں تھا ، یہ ناقابلِ فراموش خدمات انجام دینا افواج پاکستان اور ہمارے حساس اداروں کا بے مثال اور قابل فخر کارنامہ ہے ۔
11 مئی 1998ء کو کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کا لب و لہجہ ہی بدل گیا تھا ، اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ اور حکمران بی جے پی کے سربراہ ایل کے ایڈوانی نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور انتہا پسند بھارتی میڈیا نے کہنا شروع کر دیا کہ اب دوبارہ اکھنڈ بھارت کی تشکیل ممکن ہو گئی ہے ، پاکستان کے جوابی ایٹمی دھماکوں سے بھارتیوں کو سانپ سونگھ گیا ، اس لیئے یوم تکبیر پاکستان کی بقاء و سلامتی کی گارنٹی کا دن بھی ہے کہ جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔