امانت گشکوری: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور وزیراعظم کی ملاقات میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط کے مندرجات کی انکوائری کرنے کے لئے وزیر اعظم کی رائے کے مطابق انکوائری کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات میں طے پایا کہ انکوائری کمیشن کی سربراہی کسی غیر جانبدار ریٹائرڈ جج کو دی جائے اور فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلہ میں ایجنسیوں کے کردار سے متعلق ہدایات پر عملدرآمد کروایا جائے۔
جمعرات کی سہ پہر کوزیراعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سپریم کورٹ میں ملاقات کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ججوں کا فل کورٹ اجلاس تقریباً پونے دو گھنٹے جاری رہا۔ اجلاس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججوں کو وزیر اعظم کی اس رائے سے آگاہ کیا کہ چھ ججوں کے خط کے مندرجات کی تحقیقات کے لئے کسی ریٹائرڈ غیر جانبدار جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن قائم کیا جانا چاہئے۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط پر غور کرنے کے لئے بدھ کے روز بھی اجلاس کیا تھا، آج جمعرات کے روز وزیراعظم کی چیف جسٹس کے ساتھ ملاقات سے پہلے بھی ایک اجلاس کیا اور وزیر اعظم کی ملاقات کے بعد ہونے والے اجلاس میں وزیر اعظم کی رائے پر مفصل غور کیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس نے تمام ساتھی ججوں کو فرداً فرداً سنا۔
ججز کے فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ مین کہا گیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہائی کورٹ کے ججز کے خط کے معاملے کو فوری ٹیک اپ کیا ۔ انہوں نے فوراً فل کورٹ اجلاس بلا کر ججز سے مشاورت کی، 27 مارچ کے فل کورٹ اجلاس میں وزیر اعظم سے چیف جسٹس کی ملاقات پر اتفاق کیا گیا تھا۔
آج وزیر اعظم سے ملاقات میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وفاقی وزیر قانون کے ساتھ ایک سینئر ترین جج منصور علی شاہ نے بھی شرکت کی۔
وزیر اعظم نے ملاقات میں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کی یقینی دہانی کرائی۔ وزیر اعظم سے ملاقات میں ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق ہوا۔
وزیر اعظم سے ملاقات میں فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانے پر بھی اتفاق ہوا۔ ملاقات میں طے پایا انٹیلیجنس ایجنسیوں کے کردار سے متعلق فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل ہوگا۔
سپریم کورٹ کے اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ تمام قومی ادارے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔
اعلامیہ میں بتایا گیا کہ فل کورٹ اجلاس میں چیف جسٹس نے وزیر اعظم سے ملاقات بارے ساتھی ججز کو اعتماد میں لیا۔ وزیر اعظم نے چیف جسٹس اور سینئر ترین جج منصور علی شاہ کی رائے سے اتفاق کیا، وزیر اعظم نے کابینہ کی منظوری کے بعد انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی یقین دہانی کرائی۔
وزیراعظم نے یہ بھی بتایا کہ وہ ریاستی اداروں کو اس ضمن میں ہدایات د یں گے۔
وزیراعظم نے فیض آ باد دھرنا کیس کی روشنی میں ریاستی اداروں کے حوالے سے قانون سازی کروانے کا بھی عندیہ ظاہر کیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے 25 مارچ کو خط لکھا اسی روز چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر اجلاس ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور دیگر ججز سے افطار کے بعد ملاقات کی تھی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے خط لکھنے والے ہائیکورٹ کے ججز کو اپنے گھر پر بلایاتھا۔
چیف جسٹس نے اڑھائی گھنٹوں کی ملاقات میں ججز کو انفرادی طور پر سنا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا خط 26 مارچ کو موصول ہوا تھا۔ خط میں تحریر کئے گئے الزامات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے اسی روز ججز سے ملاقات کی۔ 27 مارچ کو چیف جسٹس نے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل پاکستان سے ملاقات کی۔ چیف جسٹس نے پاکستان بار کونسل کے ممبر اور سپریم کورٹ بار کے صدر سے بھی ملاقات کی۔
وزیر اعظم سے آج جمعرات کو ہونے والی ملاقات میں طے پایا کہ انکوائری کمیشن کی سربراہی کسی غیر جانبدار ریٹائرڈ جج کو دی جائے۔ عدلیہ کی آزادی پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ عدلیہ کی آزادی ہی مضبوط جمہوریت کی ضامن ہے۔